گزشتہ چند سال سے سرکاری جامعات میں کنگال پن کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس کے ہاتھوں حاضر سروس کیساتھ ساتھ ریٹائرڈ ملازمین بھی متاثر ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ پھر ازراہ مجبوری عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پہنچ جاتے ہیں ان بیچاروں میں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں جن کی گزر بسر کا واحد ذریعہ یہی پنشن ہے اس طرح دائمی بیمار اور نیک اولاد سے محروم پنشنرز کا تذکرہ بھی غیر ضروری نہیں ہو گا۔ ان لوگوں سے دوران ملازمت کٹوتیاں بھی ہوتی ہیں مگر وہ اتنی نہیں ہوتیں کہ پنشن فنڈ بن سکیں۔ سننے میں آیا ہے کہ قدرے پرانی سرکاری یونیورسٹیاں‘ پنشن کی ادائیگی کے لئے انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں مگر کیا کریں کہ نہ رکنے اور نہ جھکنے والی مہنگائی جبکہ تنخواہوں مراعات اور پنشن میں ہر سال ہونے والے اضافہ جات کے بقایا جات کی ادائیگی نے جامعات کی ان کوششوں کی راہیں مسدود کر دی ہیں کہا جاتا ہے کہ قدیم درسگاہ یعنی جامعہ پشاور نے تو اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی ہدایت کے تحت پنشن انڈومنٹ فنڈ قائم بھی کر لیا ہے اب پوچھنے کی
بات یہ ہے کہ فنڈ کے لئے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے توسط سے وفاقی اور صوبائی حکومت نے کتنے مالی وسائل فراہم کر دئیے ہیں دونوں کا تذکرہ اس لئے کیا گیا کہ اب تو خیر سے اٹھارویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیاں دونوں حکومتوں کی مشترکہ ملکیت یارعایا بن گئی ہیں جواب طلب سوال یہ بھی ہے کہ جامعہ نے پنشن انڈومنٹ فنڈ کو کیسے اور کن مالی وسائل سے قائم کیا؟ کیونکہ جامعات کی مالی ابتری کی حالت تو یہ ہے کہ بیچارے ریٹائرڈ ملازمین تو بیشتر اوقات پنشن کے حصول جبکہ اس وقت تو گزشتہ ایک عرصے سے پنشن میں ہونے والے اضافے کے بقایا جات سے بھی حاضر سروس ملازمین کی طرح محروم ہیں پنشن کے مسئلے میں یہ جاننا بھی غیر ضروری نہیں ہو گا کہ جامعہ پشاور نے یہ فنڈ واقعی قائم کر لیا ہے یاجامعہ کے جس اکاؤنٹ میں پنشن کے پیسے رکھے جاتے تھے جامعہ انڈومنٹ فنڈ کا نام دیا گیا؟ جامعہ پشاور کے کندھوں پر ایک بہت بڑا مالی بوجھ وہ ریٹائرڈ ملازمین بھی ہیں جو سال 2008ء میں اسلامیہ کالج کو بلاوجہ یعنی غیر ضروری طور پر یونیورسٹی کا درجہ ملنے تک پشاور یونیورسٹی سے سبکدوش ہو گئے ہیں جن کی تعداد257 بتائی جاتی ہے اور جنہیں پنشن کی مد میں ہر مہینے ایک کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگی کی جا رہی ہے۔ اب ایک ایسی حالت میں جبکہ پشاور یونیورسٹی جیسی قدیم درسگاہ جو کہ قدرے مالی وسائل یا آمدنی کی بھی حامل ہے مگر پھر بھی گزشتہ آٹھ مہینے سے 15 فیصد اضافی تنخواہ کے بقایا جات کی ادائیگی کی پوزیشن نہ ہو ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے پانچ چھ کروڑ روپے ماہانہ کہاں سے آئیں گے؟ یعنی حکومت کی طرف سے جب تعلیمی بجٹ میں حسب ضرورت معقول ادائیگی کی اضافے کی بجائے ہر سال کٹوتی کی جا رہی ہو تو ریٹائرڈ
ملازمین کا کیا بنے گا؟ میری ناقص رائے میں تو اس مسئلے کا حل اگرچہ آسان نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے البتہ مشترکہ لائحہ عمل کے تحت آگے بڑھنے اور کچھ کردکھانے کی ضرورت ہے ان سطورمیں کئی بار تجویز دی گئی ہے کہ وائس چانسلر سے لیکر گریڈ20‘21 اور22 کے اساتذہ اور انتظامی افسران کی تنخواہوں سے ماہانہ محض پانچ سو روپے گریڈ17 سے19 تک کے ملازمین سے تین سو روپے کلاس تھری سے دو سو جبکہ کلاس فور سے صرف ایک سو روپے کٹوتی کیساتھ ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومت کی گرانٹ مخیر شخصیات کے وقتی یا دائمی عطیات‘ جامعہ کے ملک اور بیرون ملک سابق گریجویٹس یعنی ایلومنائی اور ساتھ ہی قومی اور بین الاقوامی رفاعی تنظیموں کا تعاون حاصل کرکے حقیقی معنوں میں پنشن انڈومنٹ فنڈ قائم کیا جا سکتا ہے اس کار خیر میں وقت ضائع کئے بغیر پہل کرنا ہو گی۔ بصورت دیگر بیمار لاچار اور بے آسرا ریٹائرڈ ملازمین کی بددعائیں بے اثر نہیں رہیں گی بلکہ اس وقت کے حاضر سروس ملازمین بھی کل ایسی ہی تکلیف دہ پریشانی سے دو چار ہوں گے۔