کلین اینڈ گرین مہم اور جامعات

ماحولیات سے لیکر سیاست تک ہم لوگ جس قدر بدنظمی ابتری اور پسماندگی کا شکار ہیں اسے آپ مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں اور اپنا کیا دھرا بھی۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی ہدایات کے تحت ملک میں شروع کی گئی وزیراعظم کے نام کی کلین اینڈ گرین پاکستان مہم میں جامعات کا شامل ہونا دیکھا دیکھی ہو یا وقت کی ضرورت دونوں صورتوں میں درست کام مانا جائے گا البتہ یہ حساب کتاب بھی ضروری ہے کہ جامعات میں ہر سال درختوں کی کٹائی کتنی ہوتی ہے اور سال میں دو مرتبہ پودے کتنے لگائے جاتے ہیں؟ امسال تو ایک حوصلہ افزاء امر یہ بھی سامنے آ گیا کہ جامعہ پشاور کے شعبہ علوم ماحولیات یا ڈیپارٹمنٹ آف انوائرمنٹل سائنسز کے طلباء نے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں شجر کاری مہم شروع کر دی اور یونیورسٹی کے مختلف سبزہ زاروں‘ گراؤنڈز اور دفتری احاطوں میں پودے لگا کر اپنی مہم یا صدقہ جاریہ کی تختیاں بھی نصب کر لیں پوچھنے پر بتایا گیا کہ وہ یہ کام اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی سرپرستی میں کر رہے ہیں مطلب یہ کہ کم از کم پودوں کی خریداری کے لئے شایدحکومت نے کوئی پراجیکٹ فنڈ مختص کیا ہو اور اس تجوری کی چابیاں کمیشن کے پاس ہوں ویسے توحکومت نے جامعات کی جیب سے فنڈز اور گرانٹس کے سارے پیسے نکال کر اپنی جیب میں رکھنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے جس کا 
پہلا مرحلہ جامعات کے تمام اخراجات کی ادائیگی کی کلیئرنس اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتر سے منسلک بلکہ مشروط کر دیا گیا ہے اور دوسرا مرحلہ یونیورسٹیوں کی اپنی آمدنی کو بھی جامعات کے اکاؤنٹ سے حکومتی اکاؤنٹ میں منتقل ہونے کی شکل میں مکمل ہو گا تو بات ہو رہی تھی کلین اینڈ گرین پاکستان یوتھ موومنٹ میں جامعات کے اشتراک عمل کی جسے وزیراعظم کا پروگرام کہا جاتا ہے اور یہ کوئی نیا پروگرام نہیں بلکہ ہر دور حکومت میں ہر وزیراعظم کے نام سے ایسے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ زور و شور سے اس قسم کے پروگرامات شروع کرکے چلائے گئے یعنی پلانٹ فار پاکستان‘ کلین اینڈ گرین پاکستان بلین ٹری سونامی اور اس سے بھی بڑھ کر سونامی جیسے پروگرامات آئے اور چلے گئے مگر جو نتیجہ ہمارے سامنے ہے اسے کیا کہا جا سکتا ہے دراصل اس معاملے میں خود احتسابی حد درجہ لازمی ہوتی ہے یعنی یہ کہ ہم کتنے درخت کاٹتے اور کتنے پودے لگاتے ہیں؟ ہمیں جنگلات‘ ہریالی اور سبزے کا رقبہ کتنا بڑھانا ہو گا؟ ہم جو پودے لگاتے ہیں اس کی دیکھ بھال اور آبیاری کی ذمہ داری نبھاتے ہیں یا محض تشہیر کے لئے دکھاوے کی حد تک شجر کاری کرتے ہیں؟ ملک‘ صوبے بالخصوص پشاور کی جامعات میں امسال کاٹے گئے درختوں کی تعداد ہمارے لگائے گئے پودوں سے زیادہ تو نہیں؟ کیونکہ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ لگائے گئے پودوں میں سے کتنے زندگی پائیں گے اور کتنے مرکر سوکھ جائیں گے؟ ماہرین ماحولیات کے مطابق اقوام متحدہ کے اس حوالے سے سے منظور شدہ کنونشن کے تحت ہر ملک کی کل حدود اربع یعنی رقبے یا زمین کا25 فیصد جنگلات ہریالی‘ سبزے اور فصلوں کے لئے مختص ہو گا یہ بالکل نہیں کہا کہ وہاں پر پلازے‘ مارکیٹیں‘ ورکشاپ‘ محلے‘ گلیات‘ سڑکیں اور گاڑیاں کتنی ہوں گی؟ اب یہ محاسبے بلکہ خود احتسابی کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں جنگلات کا رقبہ کتنا ہے؟ یعنی محض دو سے چار فیصد اور پھر جب مکافات عمل کا شکار ہو کر گزشتہ سال کی طرح سیلابوں کی تباہ کاری سے دو چار ہو جاتے ہیں تو اسے پہلے تو 
مون سون کا نام دیتے ہیں لیکن جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل آ کر پاکستان کی ملیا میٹ صورتحال کو موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں تو پھر ہم دنیا کے آگے امداد کے لئے جھولی پھیلا دیتے ہیں وجہ یہ ہے کہ شجرکاری کے حوالے سے ہم اسلامی تعلیمات اپنی ضروریات اور موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے احساس سے عاری ہو چکے ہیں پشاور یونیورسٹی جیسے خوبصورت پر سکون اور صحت افزاء مقام میں ہم نے ٹریفک کے اژدھام اور گاڑیوں کے اڈے‘ تہہ بازاری کی بہتات‘ تیزی رفتاری‘ شور‘ دھوئیں اور ہر طرح کی بدنظمی کا موقع فراہم کرکے محض دو پیسے ہتھیانے کی خاطر ماحول کو بربادی سے ہمکنار کرنے میں سہولت کار بن گئے ہیں جبکہ المیہ یہ بھی ہے کہ اس چار دیواری سے باہر پولیس محکمہ تحفظ ماحولیات سمیت قانون بنانے اورقانون پر عملداری کے ذمہ دار جتنے ادارے بھی قائم ہیں ان سب نے چپ سادھ لی ہے یہاں تک کہ اساتذہ تنظیمیں بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں؟ کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ پیوٹا یا دوسری جامعات کے اساتذہ کیمپس کی بگڑی ہوئی بلکہ بگڑتی ہوئی ابتر حالت پر ردعمل کے طور پر جلسہ جلوس‘ دھرنا یا کلاسز کے بائیکاٹ جیسا کوئی انتہائی قدم اٹھائے لیکن روایتی طریق پر اخلاقی ذمہ داری کے طور پر آواز اٹھانے میں کیا حرج اور کیا رکاوٹ ہے؟