حکومت نے مالی سال2022-23 کے بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافے کا جو اعلان کیا تھا وہ جامعات کی حد تک محض اعلان ہی رہا‘ بعد ازاں کتنے منی بجٹ پیش کئے گئے؟ مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچی؟ اس کے باوجود یونیورسٹیوں کے ملازمین بجٹ والی اضافی تنخواہ جبکہ سبکدوش خواتین و حضرات پنشن کے اضافے سے گزشتہ آٹھ مہینے سے محروم چلے آ رہے ہیں‘ اس مسئلے کی قدرے زیادہ گھمبیر صورت پرانی یونیورسٹیوں بالخصوص جامعہ پشاور میں نظر آ رہی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ بالآخر نویں مہینے ملازمین کے ضبط و حوصلے نے جواب دیدیا یعنی پیمانہ صبر لبریز ہو کر ایک بار پھر تالہ بندی کرکے کام کاج کو خیر باد کہہ دیا گیا اور ایکا کرکے سڑک پر بیٹھ گئے۔یونیورسٹی سربراہ کا کہنا ہے کہ جامعہ میں مالی وسائل کا فقدان ہے لہٰذا بقایا جات کی ادائیگی ممکن نہیں‘ دوسری جانب احتجاجی ملازمین کا موقف ہے کہ یونیورسٹی کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں لیکن وائس چانسلر ضد،ہٹ دھرمی اور انانیت پر اتر آئے ہیں ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے درمیانی بات درست ہو یعنی یونیورسٹی کے پاس اتنے پیسے ہوں کہ اس سے بقایا جات کی ادائیگی ہو سکے البتہ اس بات کی تصدیق شاید ممکن نہ ہو کہ ”یونیورسٹی کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں“ اب مسئلے کی جڑ کہاں ہے؟ یہ بات قدرے زیادہ توجہ طلب ہے مطلب یہ کہ کورونا کے سبب جامعامات کی بندش کے نتیجے میں جامعات کو جس قدر بھاری مالی نقصان یا اخراجات میں خسارے کا جو سامنا کرنا پڑا اس میں ریلیف پیکج کے طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کو کتنے پیسے دیئے گئے؟ بجٹ میں جس اضافے کا اعلان کیاگیا اس کی ادائیگی کے لئے جامعات کو کتنی اضافی گرانٹ فراہم کی گئی؟ جامعات کے مالی اخراجات کا تو کئی طرح سے آڈٹ کیا جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ باقاعدہ احتساب کا بھی کوئی نظام موجود ہے یا ہر کسی کی اپنی مرضی ہے؟ ملک میں تعلیم کے لئے کتنا بجٹ درکار ہے اور موجودہ تعلیمی بجٹ کتنا ہے؟ اب اگر بقایا جات کا مسئلہ حل بھی ہو جائے تو کم از کم پشاور یونیورسٹی کیمپس کی حد تک دوسرے حل طلب بلکہ سلگتے ہوئے مسائل بھی ہیں جس کا احل محض انتظامیہ کی نہیں بلکہ انتظامیہ، ٹیچنگ سٹاف،نان ٹیچنگ سٹاف اور کیمپس پولیس کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے مگر جو کچھ ظاہر ہے وہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کو فرائض منصبی نہیں سمجھتا مثال کے طور پر کیمپس میں صاف ستھرے پر سکون تعلیمی ماحول کا قیام‘ ٹریفک کی خود سری‘ جم غفیر‘ شور‘ دھوئیں‘ تیزرفتاری اور یونیورسٹی کو پبلک ٹرانسپورٹ کے اڈے میں تبدیل ہونے سے بچانا‘ ٹک ٹاکر تک ہر قسم کی ہلڑ بازی‘ کالے سٹیکر والی گاڑیوں کی سکریچنگ‘ ریس ہراسیت‘ بھکاریوں اور آورہ گرد عناصر کا قلم قمع‘ پریشر ون ویلنگ‘ناقابل استعمال رکشوں اور گاڑیوں کے غیر قانونی نقل و حمل کی روک تھام‘ صفائی ستھرائی کا موثر نظام بھرپور شجرکاری‘ کینٹینوں‘ کیفے میس اورشاپس میں اشیائے خورد و نوش کے معیار مقدار اور قیمتوں کی کڑی نگرانی جبکہ ہفتے میں چھ روز کام کا نظام لاگو کرکے صبح آٹھ بجے سے دن دو بجے تک نہایت ذمہ داری اور مستعدی سے دفتری امور کی انجام دہی جیسی ذمہ داریاں کون پوری کرے گا؟ اس وقت تو حالت یہ ہے کہ اگر یونیورسٹی کا ہر ملازم یونیورسٹی کیمپس کی حالت زار کا بغور جائزہ لیکر اور خود احتسابی کا احساس جگا کر دیکھ لے تو یہ تلخ حقیقت پوشیدہ نہیں رہے گی کہ پشاور یونیورسٹی کیمپس اور باہر کی دنیا میں ہر لحاظ سے جو فرق پایا جاتا تھا اب وہ قصہ پارینہ بن گیا ہے بقایا جات اورکٹوتیوں کیخلاف صف آراء ہونا اور جوشیلے تقاریر سے اپنی یونین سیاست کو چمکانا اپنی جگہ ضروری اور قابل تائید صحیح مگر اس کے علاوہ جن مسائل کا ذکر کیا گیااس کا حل کس کی ذمہ داری ہے؟
اشتہار
مقبول خبریں
بے اعتنائی کی کوئی حد نہیں ہوتی؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مژدہ برائے سبکدوشان
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
تجدید عزم یا عزم نو؟
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے
مادر علمی کی عظمت رفتہ
پریشان داﺅدزے
پریشان داﺅدزے