گزشتہ ایک عشرہ کے دوران احتجاج کے نت نئے طریقوں میں سے جس طریق نے سب سے زیادہ شہرت پائی تو وہ دھرنا احتجاج ہے۔ویسے احتجاج تو امریکہ اور یورپ جیسے ترقیافتہ ممالک بھی ہوتا ہے مگر وہ لوگ دھرنے سے زیادہ ریلیوں کو ترجیح دیتے ہیں‘ یہ تو خیر کم از کم میری معلومات میں نہیں کہ باہر کے احتجاجات کا کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے یا نہیں البتہ پاکستان میں ایسے احتجاج بہت ہی کم دیکھنے کو ملتے ہیں جس کا نتیجہ احتجاجیوں کے حق میں نکلا ہو۔ احتجاج کے نت نئے طریقوں کے آزمانے میں پشاور یونیورسٹی کیمپس بھی پیش پیش رہا ہے جبکہ اس کیلئے تو اب باقاعدہ ایکا کرکے جائنٹ ایکشن کونسل یا کمیٹی یعنی جیک تشکیل دی جاتی ہے البتہ دوسروں کے مقابلے میں انجینئرنگ یونیورسٹی والوں نے مستقل جیک کا سامان کررکھا ہے‘ مطلب ٹیچنگ سٹاف کے علاوہ باقیماندہ تمام ملازمین یعنی گریڈ20اور 21 کے افسر سے نائب قاصد تک سارے کے سارے ایک ہی چھتری تلے ایک ہی یونین میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ انجینئرنگ ایمپلائز ایسوسی
ایشن کا احتجاج بہت کم بے نتیجہ رہ جاتا ہے، پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین نے گزشتہ سال اپنے طویل دھرنا احتجاج سے غالباً کچھ بھی حاصل نہیں کیا تھا ورنہ اس موجودہ جاری بلکہ روزہ داری میں بھی رواں دواں دھرنے کی نوبت اورضرورت پیش نہ آتی۔ جامعہ پشاور کی جیک کا احتجاج خلاف توقع امسال رمضان میں بھی داخل ہوا ہے یارلوگوں نے ٹھان لی ہے کہ کچھ حاصل کئے بغیر نہیں اٹھیں گے ان کا ڈیمانڈ نوٹس تقریباً وہی پرانا ہے یعنی وہ سب کچھ ہمیں دیاجائے جس کا ہم مطالبہ کر رہے ہیں البتہ اس مرتبہ گووی سی گو والے نعرے پر قدرے زیادہ زور دیا جاتا ہے اب یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ تالہ بندی کرنیوالے اپنے اس مطالبے میں کس حد تک حق بجانب ہیں؟ یا یہ کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے کے مصداق ان کے تمام تر مطالبات‘ خواہشات اور توقعات پوری ہونگی؟ یا 7مارچ سے مرحلہ وار شکل میں جاری یہ موجودہ احتجاج بھی مارچ2022ء کے احتجاج کی طرح دھرنا داروں سمیت ہر کسی کیلئے وقت کا ضیاع ثابت ہوگا؟ احتجاجی بھائی بندی کس قدر متحد‘ مستعد اور متحرک ہے؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں بلکہ ایک بار کی باہر روڈ تک لیجانے والی اس ریلی سے تو باآسانی لگایا گیا جس میں احتجاج یا جیک کے منتظمین کے بار بار بلانے اور پکارنے کے باوجود تقرباً آدھے لوگ رفوچکر ہوگئے۔ یونیورسٹی ملازمین کا حالیہ احتجاج جس وجوہ پر جس نعرے کیساتھ شروع ہوا تھا اس میں طلباء تنظیمیں بھی شامل تھیں البتہ اسلامی جمعیت طلبہ کا موقف متحدہ طلباء محاذ میں شامل دوسری تنظیموں سے اس حد تک مختلف تھا کہ وہ کلاسز کے بائیکاٹ کے حق میں نہیں تھی، پھر انہی تنظیموں
نے یونیورسٹی کے اندر کیمپس کا سب سے مصروف روڈ جو کہ اب رکشوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کی بھرمار کے ہاتھوں مصروف سے مصروف ترین بن گیا ہے تقریباً تین ہفتے اس وقت تک بند رکھا جب وہ اپنی مرضی سے خود نہیں اٹھیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ اور کیمپس پولیس نے لوگوں کیلئے شدید مشکلات کے باوجود چپ سادھ کی عادت اور روایت برقرار رکھی۔ جیک کے منتظمین نے پہلے روزے پر یوم پاکستان23مارچ کی تعطیل کے سبب احتجاجیوں کو چھٹی دے کر اعلان کیا کہ روزوں میں صبح سے دوپہر تک احتجاجی کیمپ کے دورانیہ میں تلاوت اور نعت خوانی کا بھی اہتمام ہوگا یعنی ہم خرما ہم ثواب۔ یہ جاننا غیر ضروری نہیں کہ طلباء کی نہایت ہی مہنگی تعلیم کا جو وقت ضائع ہوتا ہے اور یہ شعبہ امتحانات اکاؤنٹس اور انتظامیہ کے دفاتر کی بندش کے ہاتھوں لوگوں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے یہ سب کچھ کونسے زمرے میں گنے جائینگے؟ ہاں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس وجہ سے یہ احتجاج ہو رہاہے اس میں حکومت کو اپنی ذمہ داری نبھانے کا احساس کب ہوگا؟۔