مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی کے سفر نامے بڑے دلچسپ ہیں اور اس کی بڑی وجہ مصنف کا منفرد انداز ہے جس میں وہ نہ صرف دیکھے گئے مناظر کی دلکش انداز میں منظر کشی کرتے ہیں اور ارد گرد کے ماحول کو ایسا نقشہ کھینچتے ہیںکہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اس ماحول یا منظر کاحصہ سمجھنے لگتا ہے ۔یوں تو رضا علی عابدی کا تعلق آواز کی دنیا سے تھا تاہم زور قلم نے ان کو اہل قلم حضرات کی دنیا میں بھی نمایاں مقام دیا ہے ، انہوں نے بچوں اور بڑوں کی دلچسپی کے مختلف موضوعات پر کئی کتابیںلکھی ہیں۔ انہوںنے برصغیر کی سیاحت پر مبنی اپنی یاداشتوں اور سرگزشت کو قلمبند کرتے ہوئے یہاںکے اہم مقامات کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھنے لائق ہے۔ ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں ”ریلوے کے معاملے میں کوئٹہ بے حد دلچسپ مقام ہے ریل گاڑی کو پنجاب اور سندھ کے میدانوں سے کوئٹہ تک اور پھر آگے افغان سرحد پر چمن تک پہنچانے کےلئے انگریزوں نے انجینئرنگ کے شاہکار تراشے تھے ¾ان کا خواب تھا کہ روسیوں کی پیش قدمی روکیں گے اور ٹرین کو افغانستان تک پہنچا کر وسطی ایشیا اور پھر یورپ تک ریل گاڑیاں چلائیں گے اس سے بھی بڑا شاہکار کوئٹہ سے فورٹ سنڈیمن تک ڈالی جانے والی ریلوے لائن تھی اسے دیکھ کر انجینئر حضرات آج بھی دانتوں میں انگلیاں دبالیتے ہیں اس کے آگے تو شملہ اور دارجلنگ کی ریلوے لائنیں بھی کچھ نہیں۔ ان دونوں پر روزانہ ہزاروں سیاح سفر کرتے ہیں فورٹ سنڈیمن والی ٹرین چل رہی ہوتی ¾ ایک خلقت انجینئروں کا وہ کارنامہ دیکھنے جاتی مگر پھر کیا ہوا؟’نہ سنا جائے گا مجھ سے یہ فسانہ ہر گز‘وہ سارے انجینئرنگ سے زیادہ عزم اور ارادے کے کارنامے تھے ویسا ہی عزم لے کر میں لندن سے کراچی اور وہاں سے کوئٹہ جا پہنچا ہمارے دوست اسلم سنجرانی وہاں کے افسر اعلیٰ تھے انہوں نے ریلوے والوں کو چوکس کرنا چاہا تو میرا نام سن کر ریلوے حکام نے خود ہی پذیرائی کا اعلان کردیا اس کے بعد کام آسان تھا کوئٹہ میں ریلوے افسران کے لئے بنائے گئے انگریزوں کے بنگلے دیکھے تو حیرت ہوئی کوئٹہ کے تاریخی زلزلے میں مرنے والے ریلوے ملازمین کے ناموں کی تختی دیکھی تو انسان کی جان کے احترام کی حقیقت مجھ پر کھلی۔کوئٹہ سے روانہ ہوا تو احساس ہوا کہ سندھ کے میدانوں سے بولان کے پہاڑوں کے راستے پہ ریلوے لائن کیسے کیسے دکھ اٹھا کے ڈالی گئی ہوگی‘پہاڑوں میں سرنگیں بھی اتنی کشادہ نکالی گئی تھیں کہ ان سے بیک وقت دو گاڑیاں گزر سکیں مگر پھر انگریز چلے گئے اور وہ دوسری لائن ڈالنے کی نوبت آنا تو درکنار یہ واحد لائن ہی سلامت رہ جائے تو غنیمت ہے‘ مجھے لائن مینوں نے دکھایا کہ قدیم پٹڑیاں اور بوسیدہ سلیپر ٹرین گزرنے کے وقت کانپتی ہیں‘ضعیفی سے جیسے کمر دہری ہو جایا کرتی ہے‘یہ وہی ریلوے لائن ہے جسے بچھانے کےلئے سروے کرنے والوں میں ہمارے ”امراﺅ جان ادا“ کے مصنف مرزا محمد ہادی رسوا بھی شامل تھے اس ریلوے لائن کے بارے میں مشہور ہے کہ1935ءکے زلزلے نے اسے ذرا بھی نقصان نہیں پہنچایا ¾ زلزلے کی وجہ سے ایک پل بارہ انچ چھوٹا ہوگیا لیکن بالکل سالم رہا اور اس پر گاڑی چلتی رہی۔دن ڈھلنے سے پہلے سبی آگیا‘ جہاں سرکاری مہمان خانے میں میرے ٹھہرنے کا بندوبست تھا“ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ایک طرف مصنف کی ماحول سے آگاہی اور اس کی قوت مشاہدہ ہے تو دوسری طرف ریلوے جیسے اثاثے کی کما حقہ ترقی نہ کرنے کا احساس بھی ہے۔جس کا اندازہ باہر سے آکر اسے دیکھنے والے تو کر لیتے ہیں تاہم بحیثیت مجموعی ہم اس کا صحیح معنوں میں ادراک نہیں کر پائے ورنہ اس اثاثے کو ہم نہ صرف محفوظ رکھتے بلکہ اس کو خاطر خواہ ترقی دیتے۔ اس وقت دیکھا جائے تو انگریزوں کے دور میں ریلوے لائن جہاں جہاں تک پہنچی تھی وہاںسے آگے لے جانا تو الگ بات ہے ، اس کو قائم رکھنا بھی ممکن نہیں ہوسکا ہے اور کئی ایسے مقامات ہیں جہاں تک اس دور میں ریلوے کی رسائی تھی اور اب نہیں۔