مشہور مصنف اور براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں پشاور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ دانی صاحب پشاور کے جس قصہ خوانی بازار کی بات کر رہے تھے قدیم بغداد جیسی گلیاں ہیں آج بھی اس کی۔ کہتے ہیں کہ کبھی سڑک کے کنارے بڑی بڑی چوکیاں پڑی ہوتی تھیں نہ صرف دور دور سے آئے ہوئے مسافر بلکہ شہر کے باشندے بھی راتوں کو ان پر بیٹھ کر قصے کہانیاں کہا کرتے تھے اور لوگ دنیا زمانے سے بے خبر ہو کر سناکرتے تھے۔وہاں انگیٹھیوں میں کاوا(قہوہ) اب بھی پکتا ہے ¾کوئلوں پر نہ سہی گیس کے چولہوں پر بھنا ہوا گوشت اب بھی مہکتا ہے۔تنوروں سے سرخ نان ا ب بھی نکلتی ہے اور گھروں کو لوٹتے ہوئے لوگ گجرے اب بھی خریدتے ہیں مگر قصہ گویوں کی وہ آدھی آدھی رات تک طرح طرح کا سماں کھینچنے والی آوازیں مدھم پڑتے پڑتے چپ سی ہوگئی ہیں۔ البتہ کہانی کہنے کی روایت ابھی پوری طرح اٹھی نہیں۔پشاور میں رہتے رہتے ایک چھوٹی سی کہانی میں نے بھی سنی تھی۔ یورپ یا شاید امریکہ سے پشاور آنے والے ایک جوڑے کی یہ کہانی سوئیکارنوچوک کے پچھواڑے ایک موٹرگیراج میں حاجی محمد یوسف صاحب نے مجھے سنائی تھی۔شہر پشاور میں دو اجنبیوں کا وہ قصہ جو انہوں نے مجھے سنایا ¾ آب بھی سنئے اور ان ہی کی زبان میں!”کچھ سال کی بات ہے ¾ یہاں یہ گلیکسی ہوٹل ہمارے ساتھ ہی ہے ¾اس ہوٹل میں وہ ٹھہرے تھے ¾انہوں نے کہیں دیکھ لیا کہ پشاور میں شادی کا طریقہ یہ ہے کہ دولہا گھوڑے پر بیٹھتا ہے ¾تو انہوں نے ہوٹل کی انتظامیہ سے کہا کہ ہمارے لئے بھی یہی بندوبست کردو۔انہوں نے جاکر بینڈ باجے کا انتظام کیا ¾ پھولوں کے سہرے بنائے اس میاں بیوی کے لئے ¾ تو انہوں نے ہوٹل میں سہرا باندھ کر اور گھوڑے پر بیٹھ کر بارات نکالی جس کے آگے آگے بینڈ باجاتھا۔ وہ قصہ خوانی بازار کی طرف نکل گئے چکر لگانے کے لئے شہر پشاور کے جونوجوان تھے وہ بھی ساتھ شامل ہوگئے اور راستے میں بھنگڑا ڈالتے گئے اور ناچتے گئے اور پورے پشاور کا چکر لگاکر واپس آئے اور بہت خوش ہو رہے تھے کہ ہمیں بہت پسند آیا یہ رواج۔کتب بینی اور کتابوں سے محبت کم ہوتی جارہی ہے ماضی میں اس کا عالم کیا تھا معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی اپنے ایک پروگرام کے حوالے سے بتاتے ہےں کہ جب بی بی سی سے کتب خانہ کے عنوان سے پروگرام ہونے لگا اسی روز سے سامعین کے خطوں کا تانتا بندھ گیا وہ کہتے تھے کہ ہمارے بزرگوں کی کتابوں کا ذکر کسی نعمت سے کم نہےں دلچسپ بات یہ ہے کہ خط لکھنے والے سامعین دو قسم کے تھے ایک تو وہ جنہےں حصول علم سے لگاﺅ تھا اور دوسرے وہ جو کتاب پڑھنے کے معاملے میں ذرا سست ہےں تعریفوں نے طول کھینچا اور اوپر سے یہ کہ نہایت اعلیٰ طبقے کے اہل علم حضرات کے خط آنے شروع ہوئے پروفیسر آل احمد سرور‘ مولانا امتیاز علی خاں عرشی زادہ اور ابن انشاءمرحوم کے خطوں نے بی بی سی کی انتظامیہ کو بہت متاثر کیا اور مجھے اشارہ مل گیا کہ بارہ ہفتوں کی پابندی ختم جب تک چاہو پروگرام جاری رکھو اور ہر پروگرام جو صرف دس منٹ کا ہوتا تھا اس کا دوانیہ بڑھا لو۔بس پھر جو یہ دامن کشادہ ہوا تو میں کتب خانوں سے جھولیاں بھربھر کر کتابیں لایا اور باقاعدگی سے سننے والوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں مالا مال کردیا‘پروگرام کتب خانہ تقریباً ڈھائی سال جاری رہا اس دوران کتنے ہی صدا کاروں نے اس میں حصہ لیا مثال کے طور پر ’اندر سبھا‘ کے اقتباس ڈرامے کی شکل میں پیش کئے گئے تو اس میں کالے دیو اور سبز پری کے کردار ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے معروف صدا کار اور اداکار محمود خان مودی نے ادا کئے تاجدار اودھ واجد علی شاہ کے دور میں جب یہ ناٹک کھیلا جاتا تھا ۔“ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ وہ مٹنے نقوش ہیں جن کو محفوظ کرنے کی اشد ضرورت ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ جوںجوں زندگی کی رفتار تیز ہورہی ہے مناظر پیچھے کے طرف تیزی سے دوڑنے لگے ہیںاور ہر کوئی آگے دوڑوں پیچھے چھوڑو والے فارمولے پر عمل پیرا ہے، ایسے میں بہت کم لوگوں نے ماضی کے ساتھ اپنے رابطے کو استوار رکھا ہے۔