کچھ سفر نامے اس انداز میں تحریر کئے جاتے ہیں کہ ان کو پڑھنے والے انہیں بار بار پڑھ کر بھی سیر نہیں ہوتے۔ مشہور براڈ کاسٹر اور مصنف رضا علی عابدی کا شمار بھی انہی قلم کاروں میں ہوتا ہے جن کے سفرناموں پر وقت کی دھول نہیں جمتی بلکہ وہ ہمہ وقت تازگی کا احساس دلاتے ہیں۔ایک مقام پر اپنے پنجاب کے سفر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ماہ رمضان کی تپتی دھوپ میں ہماری بس کھاریاں پہنچی‘ کھاریاں کا یہ سارا خطہ بنجر پڑا تھا اور میں بس کی کھڑکی سے ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر سایہ ڈھونڈ رہا تھا‘ اس سائے کا معاملہ عجیب ہے‘ آس پاس کہیں موجود نہ ہو تو آنکھیں اسے تلاش کرتی ہیں‘ موجود ہو تو چاہے اس کے تلے جانے کی ضرورت نہ پڑے تب بھی یہ اطمینان رہتا ہے کہ سایہ موجود ہے‘ اس روز دہکتی ہوئی سوکھی زمینوں کا سفر طے کرنے کے بعد جب گھنے درخت آئے تو تشفی سی ہوگی‘ میرے ایک ہم سفر نے کہا کہ درخت آگئے‘ اب گجرات قریب ہے‘ گجرات میں اکبر کی تین نشانیاں مجھے زبانی یاد تھیں۔حصار، یعنی قلعہ تو دور سے نظر آنے لگا‘ نیچے سے ٹیلے کی چوٹی تک بہت اونچی فصیلیں اٹھائی گئی ہیں اور ان پر پتھر اتنی صفائی اور مضبوطی سے چنے گئے ہیں کہ اب تک ایسے صحیح سالم رکھے ہیں، قلعے تک جانے کیلئے مسلسل چڑھائی ہے‘ اس چڑھائی کی دونوں جانب دکانیں اور مکان ہیں‘ ہم صاف ستھرے، بلندی پر بنے ہوئے ہوادار کمروں کی دہلیزوں سے گزر کر کنویں تک پہنچے۔آپ نے کبھی سوچاہے کہ آپ اگر کوئی کنواں دیکھنے جائیں تو اس کے اندرجھانکتے ضرور ہیں‘ جرنیلی سڑک کے اس سفر میں ہم نے ایسے ایسے بہت سے کنویں جھانکے‘ اس گجرات کے کنویں پر ایک بہت پرانی عبارت دکھائی دی‘ کسی خوش خط پینٹر نے اردو اور گور مکھی میں لکھا تھا‘براہ کرم کنویں کے اندر کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں۔ہم نے جلدی سے جھانک کر دیکھا‘ اندر کوڑا کرکٹ بھرا ہوا تھا۔اس باﺅلی سے ملا ہوا‘اوپر چڑھتی ہوئی بازار نما سڑک کے کنارے اکبر کا بنوایا ہوا حمام بھی تھا‘ یہاں غسل خانوں کے فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی تھی اور لوگ بھاپ میں غسل کرتے تھے‘ ترکی کا یہ رواج ہندوستان میں قائم نہ رہ سکا لیکن گجرات کے اس حمام میں آج بھی فرش کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے اور لوگ اپنے ہی پسینے اور بھاپ میں نہاتے ہیں‘ یہ حمام آج تک اسی طرح چلایا جا رہا ہے جیسے مغلوں کے دور میں چلتا ہوگا مگر اب اس میں جوڑوںا ور پٹھوں کے درد اور ایسی ہی دوسری تکلیفوں کے مریض نہاتے ہیں “ایک اور مقام پر رضا علی عابدی گجرانوالہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ گوجرانوالہ شاید واحد ایسا شہر ہے جوخود نہیں بلکہ اس کے شہری قابل دید ہیں صحت مند اور ہنر مند!نام پانے میں اس کے باشندوں کی مثال جمنا سے ادھر نہیں ملتی ‘ دنیا کے شہر اپنی مصنوعات اور اپنا مال برآمد کرتے ہیں ‘گوجرانوالہ نے اپنے ناموربرآمد کئے ‘ اپنے اہل علم اور اہل فن بیرون شہر بھیجے‘اس وقت پورے پاکستان میں جدید آفسٹ چھاپے خانے ‘ ہائیڈرالک پریس ‘ کولڈ اسٹوریج ‘ صابن ‘ سیمنٹ اور شکر کے پلانٹ اورطرح طرح کے کارخانے چلا رہے ہیں جن کا ذرا ذرا سا پرزہ یہی گوجرانوالہ اور آس پاس کے شہروں کے مستریوں نے خود ڈھالا ہے‘میں نے گوجرانولہ میں اتر کر یہ پوچھا کہ وہ مستری اور کاری گر کہاں ملیں گے جو ہر قسم کی مشینیں بنا دیتے ہیں‘ انہوں نے میری انگلی تھامی اور مجھے لے جا کر محمد صدیق صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا چھوٹے شہر کے بظاہرچھوٹے سے کاریگر ہیں لیکن صابن سازی کے بڑے بڑے پلانٹ بناتے ہیں‘کہنے لگے کہ اپنی اس خداداد صلاحیت کے معاملے میں پاکستان کے کاریگر دنیا بھر میں مشہور ہیں‘ کہتے ہیں کہ ایک اطالوی ماہر کو استاد کیا تھا بعد میں وہ استاد کو سلام کرنے اٹلی گئے اور مشین سازی کی صنعت دیکھنے برطانیہ پہنچے محمد صدیق صاحب کہتے ہیں جب میں لندن میں گیا تو وہاں ایک ورکشاپ تھی جہاں مشینوں کو ری کنڈیشن کرتے تھے سب سے پہلے انہوں نے یہ سوال کیا کہ آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں پاکستانی ہوں ‘ تو انہوں نے بڑے مایوس لہجے میں کہا کہ آپ ذرا یہاں ٹھہر جائیں تو اسکے بعد ہم آپ کو اجازت دیںدینگے اندرراﺅنڈ لگانے کےلئے اس کی وجہ پھر ہم نے دریافت کی تو کہنے لگے کہ جی پاکستان سے جو بھی آدمی آتا ہے اسے ہم بالکل نئی مشینری دکھاتے ہیں اور کچھ روز بعد پاکستان جا کر دیکھتے ہیں تو وہاں بالکل ویسی ہی مشینری تیار پڑی ہوتی ہے “ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ایک تو رضا علی عابدی کا دلچسپ اور منفرد انداز ہے تو ساتھ ہی وطن عزیز کے ہنرمندوں کی صلاحیتوں کا اعتراف بھی ہے کہ جو دنیا کے کسی بھی ملک کے ہنرمندوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں بلکہ ان کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔