(روزنامہ آج میں شائع ہونے والے کالم جو اپنی اشاعت پر قارئین نے بے حد پسند کئے، ان سدا بہار کالموں سے انتخاب کا سلسلہ قارئین کی دلچسپی کے لئے شروع کیا گیا ہے‘ ان کالموں میں اعدادوشمار اور حالات کالم کی تحریر کے وقت کی عکاسی کرتے ہیں).................
اس کی باتوں میں ایک عجیب پراسرار یت جھلکتی تھی وہ بہت کم بات کرتا تھا شاید یہی سبب تھا کہ کوئی بھی شخص اس کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور پھر شام کو کہاں چلا جاتا ہے وہ ہمارے مکان کے نیچے دکانوں کے بنے تھڑے پر بیٹھتا تھاکبھی کبھی اتوار کو دھوپ سینکنے کے بہانے میں بھی بینچ پر جا بیٹھتا ایک روز میں نے یونہی اس سے پوچھ لیا سنا بابا کیسی گزر رہی ہے؟ تو آہستہ سے بولا ’ زندگی کا ایک ایک سانس ”کُوچ نغارے“کی طرح بج رہا ہے اور ہم ہیں کہ بس سوئے ہوئے ہیں ‘ میں چونک پڑا ۔ اس کی بات نے میرے اندر کھلبلی سی مچا دی تھی ۔ میں اس کے سوال میں ڈوبتا چلا گےا کیا سچ مچ ایک عام شخص ایسی بات کر سکتا ہے میں کتنی دیر سوچوں کے بھنور میں ڈوبتا ابھرتا رہا کہ اچانک اسکی آواز کہےں دُور سے سنائی دی ”باﺅ جی ! کبھی جو نظر آتا ہے اصل میں وہ ہوتا ہی نہیں ہے‘؟دل پر ایک او ر کاری ضرب آ لگی ، میرے اندر اےک آندھی سی چلنے لگی ےہ بابا میرے ساتھ کر کیا رہا ہے؟ادھر میں سوچتا ہوں ادھر جھٹ یہ جواب دے مارتا ہے “ میں نے قدرے سنبھل کر ایک اور سوال کیا ” بابا تم اس راہ پرکب سے بےٹھے ہو؟ ’ اوئے باﺅ یار ’کیوں راکھ کُریدتے ہو تم نے کیوں ہماری بُکل کو ہاتھ ڈال لیا ہے ؟ ناں یا ر رہنے دو۔میں نے کہا بابا آج تمھےں اپنے بارے میں بتانا پڑے گا کہ تم اصل میں ہو کون؟ میرے اصرار کے باوجود وہ کافی دیر چپ سادھے رہا ، پھر وہ اپنے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کرنے لگا ’ہم دو بھائی تھے میں نے ابھی ایف اے پاس کیا تھا ،گھر میں کسی معاملے پر تلخی اس حد تک پہنچی کہ گھر چھوڑ کر جانا پڑا۔جس کے عشق میں گھر چھوڑا وہ بھی کسی اور کا ہوگیا تھا، کیا بتاﺅں باﺅ یا ر! وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا کتنا عرصہ بےت گےا میں جب گھر پلٹا تو پتا چلا کہ والدین اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ، بھائی نے سب کچھ سنبھال لیاتھا حتیٰ کہ اتنے عرصے بعد اس نے مجھے بھی پہچاننے سے انکار کر دیا تھا ، میرا حلیہ بھی ایسا ہی تھا سفید داڑھی لمبے بال پھٹے پرانے لباس میں بھلا مجھے کون پہچانتا۔ میں نے بھی کسی کو نہ پہچانا اور چپ چاپ واپس لوٹا ، اسی محلے میں میرا بچپن کا دوست روشن رہتا تھا بس اسی نے مجھے گلے لگاےا اور رہنے کےلئے اپنی بیٹھک دے دی وہ دن اور آج کا دن میں سوےرے اس تھڑے پر آ بےٹھتا ہوں اور شام کو اپنی کٹےا میںجا سو تا ہوں ۔ بس یہی میری زندگی ہے میں نے دھےرے سے پوچھا ’ بابا کیا تم اس زندگی سے خوش ہو ‘ اس نے میری طرف دیکھا اور بولا ” شکر ہے اس ذات کریم کا کہ میں میلے میں گم نہیں ہوا ‘ ۔اب وہ چپ چاپ اپنی بوری سمیٹ رہا تھا۔پھرچند روز وہ دکھائی نہ دیا، ایک روز میں شاد باغ اس کے بتائے ایڈریس کی طرف جانکلا ،کچھ تگ و دو کے بعد روشن کی بیٹھک مل گئی مگر وہاں تالا لگا ہوا تھا، ایک بچے نے بتاےا بابا پچھلی جمعرات کو چنگا بھلا تھاصبح چائے دینے گیا تو ۔۔۔بچے نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔