مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی تحریروں کی چاشنی معمول کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے ذریعے درس و عبرت کا سامان فراہم کرنا ہے ۔ ایک مقام پر حکومت اور عام شہری کی ذمہ داریوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سرکار کے کام بھی بڑے نرالے ہوتے ہیں‘ یہ ایسے کام ہوتے ہیں جن میں مداخلت سے انسان قانون کی زد میں بھی آسکتا ہے‘ اسلئے کوئی شریف آدمی کارسرکار میں آڑے آنے کی ہمت نہیں کرتا‘ دوسرا ہم اپنے سارے مسائل سرکار کے ذمہ لگا کر اپنا پلو مکمل طورپر چھڑا لیتے ہیں‘کچھ کام انسان کے انفرادی طورپر بھی کرنے کے ہوتے ہیں‘میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت ہر لحاظ سے بری الذمہ ہوتی ہے‘ اسکے ذمے بھی بڑے کام ہیں۔خواتین وحضرات! جب ہم اس مشکل دور کی بات کرتے ہیں اور مہنگائی کےخلاف بہت زیادہ بولتے ہیں‘ اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ایک عام مزدور پیشہ اور سرکاری ملازم کی گزربسر بہت مشکل سے ہو رہی ہے اور وہ بہت گھٹن میں ہے لیکن جیسے ہی کسی کمپنی کی گاڑی کا نیا ماڈل آتا ہے وہ چشم زدن میں سڑکوں پر آجاتی ہے اور آپ کبھی غور کیجئے گا‘آپ کو سڑک پر کسی بھی بڑی شاہراہ پر نئے ماڈل کی گاڑیاں ہی ملیں گی‘ ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ ان نئے ماڈلز کی گاڑیوں میں بیٹھے لوگ بھی مہنگائی کا رونا رو رہے ہوتے ہیں اور حکومت پر بڑی تنقید کرتے ہیں‘میں نہ تو اس تنقید کےخلاف ہوں اور نہ ہی حق میں ہوں کیونکہ بچاری حکومت کے بھی مسائل ہوتے ہیں‘انہیں کبھی سر کھجانے کی فرصت نہیں ہوتی‘ میرے گھر کی طرف جو سڑک جاتی ہے وہ ایک بار نئی بنی تو میں بڑا خوش ہوا کہ چلو اچھا ہوا اب سڑک نئی بن گئی ہے لیکن خواتین وحضرات اگلے دن جب میں سڑک پر آیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کئی مزدور بھالے اور سڑک کھودنے کا دیگر سامان اٹھائے اس نئی نویلی سڑک کھودنے میں مصروف ہیں‘ میں نے گاڑی سے منہ باہر نکال کر ان سے پوچھا کہ وہ نئی سڑک کو کیوں اس طرح ادھیڑ رہے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ ’صاحب سوئی گیس کی پائپ سڑک سے دوسری طرف لے جانا ہے‘ٹھیک ہے حکومت کی بھی بڑی ذمہ داریاں ہوتی ہیں لیکن کچھ ذمہ داریاں ہماری اپنی بھی ہیں کہ ہم اپنے آپ ، اپنے اردگرد اور اپنے لوگوں کیلئے انفرادی طور پر کیا کرتے ہیں میں نے شاید اسلئے اپنے کردار کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی یا پھر میں اپنے جھمیلوں سے ہی نہ نکل سکا لیکن ایک بات میری روح پر ضرور بوجھ ڈالتی ہے کہ جب میں کہیں پانی کا کوئی فضول کھلا ہوا نل یا کوئی بجلی کا بلب بلاضرورت جلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو میرے دل میں سے یہ آواز آتی ہے کہ اگر یہ نل یا بلب بلاوجہ چل رہا ہے تو ملک میں یہ کسی نہ کسی کا حق تھا جو اس سے محروم ہو رہا ہے‘ہم اپنے معاملات یا مسائل میں کچھ زیادہ الجھ کر رہ گئے ہیں ۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ ذمہ داری کااحساس ہے اگر یہ ہم سب میں آجائے تو ہمارے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوتے جائیںگے۔ اگر ہم میں سے ہر کوئی انفرادی سطح پر کفایت شعاری کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے اور قدرتی وسائل جیسے پانی، بجلی کا استعمال ضرورت کے مطابق ہی کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری زندگی میں آسانی اور سہولت نہ آئے ۔ اگر ہم میں سے ہر کسی کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں ہمارے ڈھیر سارے مسائل حل ہوں۔ ہمارے ہاں مسائل اور مشکلات کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ذمہ داری دوسروں پرڈالنے کا عادی ہے اور ہرکوئی کہتا ہے کہ معاشرے میں خرابی انکی بجائے دوسروں کی وجہ سے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ ہر کوئی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اور ہر کسی کاکردار اسی طرح اہم ہے جس طرح ا یک دیوار میں ہر اینٹ اہم ہوتی ہے۔ ہر فرد ملت کی ترقی اور تنزل میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ اگر یہ حقیقت تسلیم کی جائے تو سارے مسائل حل ہوں گے اور معاشرہ ترقی و کامرانی سے ہمکنار ہوگا۔