زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو قلم بند کرنا بھی ایک فن ہے اور اس کی اگر کسی کو مہارت حاصل ہو جائے تو یقینا ایسے لوگوں کی یادداشتوں سے پڑھنے والے لطف اندوز ہوتے ہیں ایسے ہی لکھنے والوں میں ممتاز براڈ کاسٹر رضا علی عابدی کا نام بھی شامل ہے جن کے سفر ناموں کو خصوصی شہرت حاصل ہے۔ملازمت کا پہلا دن ہمیشہ یادگار رہتا ہے اس حوالے سے معروف براڈ کاسٹر بی بی سی میں اپنی ملازمت کے آغاز سے متعلق بتاتے ہیں کہ تحریری اور زبانی آزمائشوں سے گزرنے اور بار بار طبی معائنے کرانے کے بعد جب بھرتی کی تصدیق ہوئی اور میں کراچی سے لندن پہنچا تو پہلی بار مائیکرو فون کو مقابل پایا مگر چونکہ زندگی بھر ریڈیو سنا تھا اس لئے یہ مخلوق کچھ بھیانک نہیں لگی، پہلے روز سے ہی پروگرام نشر کرنے لگا اور شروع شروع کی چھوٹی موٹی حماقتوں کے سوا کوئی بڑی بھول نہیں ہوئی۔عمر بھر ریڈیو سننے کی ذرا سی تفصیل یوں ہے کہ جن دنوں میں نے ہوش سنبھالا میرے والد صاحب روڑ کی انجینئرنگ کالج کی ملازمت سے سبکدوش ہو کر اپنا ریڈیو اور گرامو فون کا کاروبار شروع کرچکے تھے، اس وقت دوسری عالمی جنگ اپنے عروج پر تھی اور گھر میں ریڈیو کی خبریں کثرت سے سنی جاتی تھیں، مجھے خبروں سے تو کوئی خاص سروکار نہیں تھا البتہ آل انڈیا ریڈیو دلی سے بچوں کا پروگرام اور سننے والوں کے خطوں کا پروگرام ضرور سنتا تھا۔خبروں کی حد تک مجھے علامہ اقبال کی وفات کی خبر یاد ہے سننے والوں کے خط بھلا کیوں یاد رہتے البتہ ان خطوں کا جواب دینے والے کا لب ولہجہ کانوں کو بھلا لگتا تھا اور دل پر اثر کرتا تھا۔ ہاں تو جب تمام آزمائشوںسے گزر کر ایک نشرگاہ میں خود کام شروع کیا تو یہاں بھی دو چیزیں نمایاں پائیں، وسیم صدیقی بچوں کا بے حد مقبول پروگرام شاہین کلب پیش کررہے تھے اور تقی احمد سید سامعین کے خطوں کا پروگرام انجمن ترتیب دے رہے تھے، مجھے کیا خبر تھی جلد ہی یہ پروگرام مجھے سونپ دیئے جائیں گے، ایک بار تقی احمد سید صاحب بیمار ہو گئے اور ان کا پروگرام انجمن پیش کرنے کیلئے ایسے پروڈیوسر کی تلاش شروع ہوئی جس پر کوئی دوسری ذمہ داری نہ ہو، اس وقت میں ہی نووارد تھا، یہ قرعہ میرے ہی نام نکلا، مجھ سے کہاگیا کہ جب تک تقی صاحب واپس نہیں آتے ریڈیو پر سامعین کے خطوں کے جواب تم دیاکرو گے‘ خطوں کا ایک پلندا میرے حوالے کردیا گیا اور انجمن پیش کرنے کیلئے ضروری باتیں سمجھا دی گئیں۔مارے ا شتیاق کے جھٹ وہ سارے خط کھولے اور پڑھنے شروع کردیئے، ان میں تین طرح کے خط تھے، اول تعریفی کلمات سے بھرے ہوئے خط، ریڈیو پراپنا نام سننے کے شوقین لوگوں کا خیال تھا پروگراموں کی تعریف کی جائے گی تو خط ضرور نشر ہوگا، دوسرے نمبر پر شکایتی خط تھے، خط تو بہت تھے مگر شکایت ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ بی بی سی والے آداب عرض کیوں کہتے ہیں، مجھے سمجھا دیا گیا تھا کہ اس مضمون کے بہت خطوط آئیں گے، بہتر ہوگا کہ خاموشی اختیار کی جائے۔تیسری قسم کے خط بہت تھوڑے تھے، وہ خط جن میں کسی نہ کسی انداز میں انسانی جذبات کا اظہار کیاگیا تھا، والدہ سخت بیمار ہیں، وہ اس حالت میں بھی بی بی سی سنتی ہیں، دادا جان چل بسے، آخر روز تک آپ کی خبریں سنتے رہے، باجی کے ہاں جڑواں بیٹے پیدا ہوئے ہیں، اب ہمارے گھر میں آپ کوسننے والوں کی تعداد میں بھی دو کا اضافہ ہوگیا یا کسی چھوٹی سی بچی کا خط ، شریر بھائی نے میری گڑیا کی چوٹی کاٹ دی ہے، بتایئے کیا کروں؟بس میں نے ایسے ہی سارے خط چنے اور زندگی میں پہلی بار پروگرام انجمن پیش کیا“اس اقتباس کا حاصل مطالعہ پرانے وقتوں کی یادوں کو تازہ کرنے اور ان سے لطف اٹھانے کی اہمیت ہے ،دیکھا جائے تو ہر کسی کو پرانے دور کی باتیں اور یادیں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ یعنی ایک طرف اگر حالات حاضرہ میں کسی بھی فرد کی دلچسپی یقینی ہے یعنی وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے ارد گرد کیا ہورہاہے تو ساتھ ہی پرانے زمانے اور گزرے وقتوں کی باتوں اور واقعات میں بھی دلچسپی کا اظہار ہر فرد کرتا نظر آتا ہے ۔ اسکی شاید بڑی وجہ یہ ہے کہ گزرے لمحے واپس نہیں آسکتے اس لئے وہ انمول ہوتے ہیں اور ان سے وابستہ یادیں اگر دوبارہ تازہ ہوں تو اس سے لطف اٹھانے کی بات ہی کچھ اور ہے ۔