اپنی سرگزشت میں قدرت اللہ شہاب بیان کرتے ہیں ”2مارچ1962ءکو رات کے ساڑھے گیارہ بجے ماں جی جناح ہسپتال کے ایک کمرے میںاچانک ہم سے رخصت ہو گئیں ‘اس وقت میری جیب میں ریل گاڑی کے دو ٹکٹ تھے کیونکہ اگلی صبح میں نے ان کو اپنے ہمراہ لےکر راولپنڈی کےلئے روانہ ہونا تھا۔ماں جی کو کراچی کے قبرستان میں چھوڑ کر جب میں تنہا راولپنڈی پہنچا تو معاًیوں محسوس ہوا کہ گھر کی چھت اُڑ گئی ہے ۔ ایوان صدر میں اپنے دفتر گیا تو وہ بھی اُجڑا اُجڑا سا نظر آیا۔ کئی روز تک میرے سامنے میز پر فائلوں کا پلندہ جمع ہوتا رہا اور میں دیر دیر تک اس ڈھیر پر سر ٹکائے بے حس و حرکت بیٹھا رہتا تھا۔ایک روز نہ جانے دل میں کیا اُبال اٹھا کہ فائلیں میز پر جمع ہوتی رہیں اور میں ایک کاغذ پر سرجھکائے بے ساختہ”ماں جی“ کے عنوان پر ان کے بارے میں لکھتا رہامیرے اردلی نے بتایا کہ اس دوران صدر ایوب کوئی بات کرنے بذات خود میرے کمرے میں تشریف لائے تھے ۔ انہوں نے مجھے کاغذ پر جھکے ہوئے آنسو بہاتے دیکھا تو بغیر کچھ کہے سنے‘ چپ چاپ واپس چلے گئے ۔ دو تین گھنٹے میں میری تحریر مکمل ہو گئی اور دل پھول کی پتی کی طرح ہلکا ہو گیا ۔ صدر کے ملاحظہ کیلئے میں نے جلدی جلدی چند فائلیں تیار کیں اور انہیں لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ میری فائلوں کو انہوں نے خاموشی سے دیکھا اور ان سب پر مناسب احکام درج کرکے مجھے لوٹا دیا۔جب میں اٹھ کر باہر آنے لگا تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے واپس بٹھا لیا ۔ چند لمحے مکمل خاموشی طاری رہی ‘ پھر وہ نہایت نرم اور ہمدردانہ لہجے میں بولے ”مجھے احساس ہے کہ تمہارا زخم ابھی ہرا ہے میری مانو تو چند روز کیلئے سوات ہو آﺅ۔ تم اورنگزیب اور اس کے والد کو اچھی طرح جانتے ہو۔ خوش مزاج اور زندہ دل لوگ ہیں میں انہیں ٹیلی فون کردوں گا ۔شاید تمہارا غم کسی قدر ہلکا ہو جائے ‘میں نے ان کا شکریہ ادا کرکے کہا” سر! آج ایک خاص بات تھی ‘وہ پوری ہو گئی ہے ‘ اب میں بالکل نارمل ہوں “ ایسی کیا خاص بات تھی ؟ کچھ ہمیں بھی تو اعتماد میں لو“ وہ نرمی سے بولے ‘ میں نے کسی قدر ہچکچاہٹ سے جواب دیا ” سر! میں نے اپنی ماں کی یاد کو الفاظ مےںڈھال کر کاغذ پر منتقل کر دیا ہے ۔ اب یہ المیہ صرف میرا ہی غم نہیں رہا ۔ کہاں چھپواﺅ گے ؟ انہوں نے پوچھا” کسی رسالے میں غالباً نقوش میں “ میں نے جواب دیا”جب چھپ جائے تو مجھے بھی پڑھنے کیلئے دینا ‘انہوں نے فرمائش کی ‘ کچھ عرصہ بعد جب ’ماں جی ‘ نقوش‘میں شائع ہوئی تو میں نے رسالے کی ایک جلد صدر ایوب کی خدمت میں بھی پیش کر دی ۔ “قدرت اللہ شہاب کی تحریر سے اس مختصر اقتباس کا حاصل مطالعہ اپنے جذبات اور احساسات کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کی اہمیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی کے ساتھ شیئر کرنے سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ دکھ درد میں کمی ہوتی ہے ۔ ہم میں سے اکثر افراد اس تجربے سے استفادہ نہیں کرتے اور ہر ایک نے اپنی الگ دنیا بسا رکھی ہے جس کا نتیجہ مختلف نفسیاتی بیماریوں اور ڈپریشن کی صورت میں سامنے آتا ہے اگر ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ خوشیوں میں اضافہ تب ہی ہوتا ہے جب انہیں بانٹا جائے اور غم و دکھ درد اس وقت کم ہوتے ہیں جب ان کو کسی کے ساتھ شیئر کیا جائے۔