مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی نشری تقاریر روزمرہ زندگی کے واسطے ایسے مشوروں اور تجاویز سے آراستہ ہوتی کہ پڑھنے اور سننے والے اس سے بہت کچھ حاصل کرلیتے۔ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ میں صالح محمدصدیق کی شاگردی میں لکھتا رہتا ‘ میری دی ہوئی کچھ چیزیں چھپ جاتی تھیں ‘ کچھ رک جاتی تھیں وہ تحریروں کو کاٹتے بہت تھے ظاہر ہے وہ ایک اچھے ایڈیٹر تھے اور قلم کے تیر بہت چلاتے تھے جس سے میں بڑا دلبرداشتہ ہوتا تھا اور میں یہ سمجھتا تھا اور ایک مقام پر میں یہ محسوس کرنے لگاکہ میں ایک رائٹر نہیں بن سکتا اورمجھے کچھ اور کام کرنا چاہئے اور میں کوئی اور نوکری کروں گا ۔ کسی اور میدان میں اتروں گا ۔ کامیاب ہو گیا تو اچھا نہ ہو سکا تو بھی کوئی بات نہیں انتہائی دلبرداشتہ تھا ۔ جب گھر آتا تو میری ماں پوچھتی کہ” تو کچھ کھلتا نہیں ہے “ تو میں کہتا کہ ” کوئی ایسی خاص بات نہیں ہے ۔“ اور اس بات سے میری ماں بڑی پریشان ہوتی تھی کیونکہ میرے چہرے پر خوشی کے کم ہی آثار ہوتے تھے ۔ طبیعت پر ایک بوجھ سارہتا تھا لیکن اتنا نہیں تھا جتنا ہمارے نوجوان نے ڈپریشن کے عالم میں اپنے آپ پر طاری کیا ہے ۔ ہمارے اس اخبار میں ایک کاتب تھے وہ سرخیاں لکھا کرتے تھے ایک دن انہوں نے میری سلپ (جس پر رف خبر لکھی ہوئی ہوتی ہے ) لےکر کہا کہ اشفاق صاحب باوصف اس کے کہ میں سرخیاں لکھتا ہوںاور موٹی کتابت کرتا ہوں اورباریک کتابت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن میں آپ کی ہر تحریرکو بڑے شوق سے پڑھتا
ہوں ‘ اس لئے کہ آپ کی تحریر کی جو ابتدا ہوتی یہ بڑے کمال کی ہوتی ہے ۔اتنی سی ایک شاباش سے جو کسی بڑے آدمی یا بڑے ایڈیٹر سے نہیں آئی تھی ‘ ایک عام سے کاتب کی طرف سے موصول ہوئی تھی اور ان کا فرمانا کوئی مستند بھی نہیں تھا ‘لیکن اس نے بحیثیت ایک قاری کے مجھے یہ کہا تھا ان کے چند الفاظ نے مجھے ”ری سائیکل “ کر دیا۔ہماری بہوئیں ہماری ساسوں سے کیوں نالاں رہتی ہیں ساسیں اپنی بہوﺅں کو گہنے دے دیتی ہیں گھرکی چابیاں دے دیتی ہیں لیکن شاباش نہیں دیتیں انہیں یہ فن آتا نہیں ہے کبھی یہ نہیں کہتی ہے کہ تم نے میٹھے چاول پکا کر کمال کر دیا ہے یہ گڑ والے چاول اتنے کمال کے ہیں کہ ہم سے یہ کبھی پک نہیں پائے ہیں لڑکی تم نے یہ کیا ترکیب لڑائی ہے! اب ساس کے اتنا کہنے سے وہ زندہ ہوجائے گی اور ساری عمر آپ کی خدمت کرتی رہے گی ۔“ اس تحریر کا حاصل مطالعہ حوصلہ افزائی کے چند بولوں کی اہمیت ہے ۔جو کسی کی زندگی کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابلے میں حوصلہ شکنی سے باصلاحیت افراد بھی زندگی میں کامیابیوں کے حصول سے دور رہ جاتے ہیں۔ حوصلہ افزائی وہ عمل ہے جس کے ذریعے معاشرے میں کامیاب افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتاہے اور اس میں کوئی شک نہیںکہ جس معاشرے میںزیادہ سے زیادہ لوگ کامیابیاں سمیٹ رہے ہوںاسے بحیثیت مجموعی کامیابی معاشرہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اگر اپنے ساتھ کسی بھی حوالے سے زندگی کی دوڑ میں شریک افراد کی حوصلہ افزائی کرے تو اس کے ثمرات حوصلہ افزائی کے نتیجے میں کامیابی سمیٹنے والے فرد کے ساتھ پورے معاشرے کو ملیں گے۔آئیے ہم میںسے ہر کوئی یہ عزم کرلے کہ کسی کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کو رواج دیں گے۔