آئی ایم ایف کی کہانی

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جسے اکثر عالمی قرض دہندہ کے طور پر ’آخری حل‘ کہا جاتا ہے کو کسی ہسپتال کے ’ایمرجنسی وارڈ‘ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ 1944ء میں قائم ہونے والا اور ستائیس دسمبر 1945ء کو اُنتیس بانی ارکان کے ساتھ کام شروع کرنے والا ’آئی ایم ایف‘ اب اپنی رکنیت کو 190ممالک تک بڑھا چکا ہے اور اِس کے قرض دینے کی صلاحیت تقریباً 700 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان 1950ء سے آئی ایم ایف کا رکن ہے اور چوبیس سال کے عرصے میں 73 مواقعوں پر آئی ایم ایف سے مدد لی جا چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی آئی ایم ایف میں شمولیت کے بعد اوسطاً ہر تین سال بعد ہم نے خود کو ’ایمرجنسی وارڈ‘ میں پایا ہے۔ یہ صورت حال البرٹ آئن سٹائن کی یاد دلاتی ہے جنہوں نے پاگل پن کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”کسی ایک عمل سے مختلف نتائج کی توقع کرتے ہوئے اُس عمل کو بار بار دہرانا ’پاگل پن‘ کہلاتا ہے“وزیر اعظم شہباز شریف کی فعال سرگرمیوں‘ جن میں تین فون کالز اور محترمہ کرسٹالینا جارجیوا کے ساتھ تین ملاقاتیں‘ امریکی محکمہ خزانہ کی اہم حمایت اور پاک فوج کی اسٹریٹجک ملٹری ڈپلومیسی کی وجہ سے پاکستان نے کامیابی کے ساتھ ممکنہ تباہ کن ڈیفالٹ کو ٹال دیا ہے۔  ’آئی ایم ایف‘ کے ایگزیکٹو بورڈ نے تین ارب ڈالر یا پاکستان کے کوٹے کا ایک سو گیارہ فیصد حصہ رکھنے کے لئے نو ماہ کے اسٹینڈ بائی بندوبست کی منظوری دی ہے۔ یہ ایک مشروط قرض ہے جسے سود کے ساتھ واپس کرنا پڑے گا۔ یاد رہے کہ گزشتہ تئیس انتظامات بھی حکام کے معاشی استحکام کے پروگرام کی حمایت میں کئے گئے تھے لیکن وہ ناکام رہے۔خطرے کی گھنٹی: کوئی بھی حکومت فوری اور سنگین چیلنج کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ پاکستان کی معیشت کا استحکام ایک ایسا کام ہے جو سات دہائیوں سے اس کے پیشروؤں سے دور رہا ہے۔ جب تک گزشتہ تیئس انتظامات کے ناکام نمونوں سے انقلابی انحراف نہیں کیا جاتا‘ آنے والی حکومتیں اپنی غلطیوں کو دہرانے اور لامحالہ ناکام ہوں گی۔ وقت آگیا ہے کہ حکمران اشرافیہ اپنی خام خیالی ترک کر کے فعال حکمت عملی اختیار کرے جو چار اہم اقدامات پر مرکوز ہونی چاہئے ایک تو مضبوط سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ اعلیٰ درجے کے ماہرین کو بھرتی کیا جائے تاکہ معاشی ادارے مضبوط ہوں اور فیصلہ سازی کے لئے فیصلہ کن شواہد پر مبنی نقطہ نظر اپنایا جائے۔ یہ معمول کے مطابق صورتحال نہیں ہے۔ ایسا نہ کرنے سے پاکستان کی معاشی مشکلات برقرار رہیں گی اور اس کے شہریوں کے مصائب میں مزید اضافہ ہوگا۔ سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مؤثر معاشی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لئے سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ حکمراں اشرافیہ کو جانبدارانہ مفادات سے بالاتر ہو کر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر معاشی اصلاحات کے لئے ایک متحدہ محاذ تشکیل دینا ہوگا۔ اس کے لئے قلیل مدتی سیاسی فوائد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کی طویل مدتی فلاح و بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ حکومت کے پاس ’آئی ایم ایف‘ کی جانب سے طے کردہ شرائط پورا کرنے کے لئے ضروری مہارت کا فقدان ہے۔ لہٰذا حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہنرمند پیشہ ور افراد کے پول میں شامل ہو۔ ایسا کرنے سے حکومت اس مہارت سے مؤثر طریقے سے فائدہ اٹھا سکتی ہے لب لباب یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچا جائے  پالیسیوں اور اصلاحات کو مقامی اور عالمی معاشی رجحانات دونوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق و تجزیئے پر مبنی ہونا چاہئے‘ ایک اور مشروط قرضے کی منظوری حکمران اشرافیہ کی دور اندیشی اور مالی بدحالی کی عکاسی کرتی ہے جس میں الجھنے سے بچنے میں ناکامی کی نشاندہی بھی ہو رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں۔ کاروائی میں تاخیر سے ملک کی سنگین معاشی جدوجہد کو نقصان پہنچے گا اور اس سے عوام کے مصائب میں مزید اضافہ ہوگا۔ یہ نازک موڑ فوری اور فیصلہ کن اقدامات کا متقاضی ہے تاکہ ملک اور عوام کو شدید نقصان سے بچایا جا سکے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)