فنڈ ریزنگ کا کیا بنا؟

کچھ عرصہ قبل جامعہ پشاورمیں فنڈ ریزنگ کا سلسلہ شروع ہوا تھا حاضر سروس اور ریٹائرڈ ملازمین سابق اور زیر تعلیم طلباءاس مہم کا حصہ تھے جبکہ خواتین اور طالبات کی سرگرمیاں بھی نمایاںتھیں اس سلسلے میں کئی بار مشترکہ اجتماع اور فنڈ یا چندہ اکٹھا کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا اس کا مقصد پنشن کے مسئلے پر قابو پانا اور نادار طلباءکو امداد فراہم کرنا تھا یہ ایک قابل ستائش کاوش تھی یعنی اپنی مدد آپ کے جذبے کے تحت آگے بڑھنا تھا مگر نامعلوم وجوہ کی بناءپر یہ جذبہ ماند پڑ گیا اور مشکلات پر قابو پانے کی تحریک یا مہم دم توڑ گئی حالانکہ موجودہ بے تحاشا ناقابل برداشت مہنگائی اور ابتر معاشی صورتحال میں اس مہم کو جاری رکھنا پہلے سے بھی زیادہ ناگزیر ہو گیا ہے ۔ میرے نزدیک تو یہ ابھی گزشتہ سال کے آواخر میں جامعہ کے شعبہ جات بالترتیب انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سٹڈیز یا بہ الفاظ دیگر آئی ایم ایس اور شعبہ بین الاقوامی تعلقات یعنی آئی آر ڈیپارٹمنٹ بالخصوص شعبہ کی سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن(ارسا) نے بزنس ایکسپو اور تنوع امن و ثقافت فیسٹول کے نام سے جن میلوں کا اہتمام کیا اگر یہ سرگرمیاں فنڈ ریزنگ کا حصہ بنائی جاتیں تو میرے اندازے کے مطابق یونیورسٹی کے ہاتھ اتنے وافر پیسے لگ جاتے کہ ان سے پنشن اور غریب طلباءکی امداد سے جڑے بہت سارے کام نمٹانے میں آسانی میسر آتی ‘ کہنے کی بات یہ ہے کہ ایسی سرگرمیاں اگر منظم انداز میں ہوں یعنی ہلڑ بازی کا عنصر شامل نہ ہو تو تسلسل کیساتھ جاری رہنا چاہئے کیونکہ ایک ایسی حالت میں جب تعلیمی بجٹ برائے نام بلکہ آٹے میں نمک کے برابر ہو اور جامعات گرانٹ کی آس لگائے مالی ابتری کی مشکل تر صورتحال سے دو چار جبکہ مالیاتی اداروں ‘ فرمز اور اخبارات کی مقروض ہوں تو ایسی ابتری میں مذکورہ میلوں جیسے مواقع کو ضائع نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ100 روپے انٹری فیس کی جگہ اگر پانچ سو ہزار روپے بھی وصول کئے جاتے تو میرے نزدیک اکٹھے ہونیوالے جم غفیر میں کوئی کمی واقع نہ ہوتی ‘ ممکن ہے کہ مالی فائدہ اب بھی ہوا ہو لیکن جن مقاصد کیلئے فنڈ ریزنگ کا سلسلہ شروع ہوا تھا یہ فائدہ اس میں نہیں پڑا ویسے لوگوں کا کہنا ہے یعنی دروغ بہ گردن راوی کہ مذکورہ میلوں کے اہتمام میں باہر سے مختلف اداروں کا مالی تعاون بھی شامل تھا اگر یہ اہتمام تسلسل سے بے چارے پنشنرز اور نادار طلباءکے تعلیمی اخراجات کیلئے کیا جائے تو ممکن تھا کہ مذکورہ بیرونی تعاون یا امداد میں بھی اضافہ ہو جاتا جہاں تک پنشن کا تعلق ہے تو اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ آج جو ملازمین حاضر سروس ہیں پنشن کل ان کا بھی مسئلہ ہو گا لہٰذا ابھی سے آگے آنا چاہئے اور فنڈ ریزنگ کے سلسلے کی بحالی کیساتھ ساتھ اپنے طور پر بھی کچھ نہ کچھ مالی قربانی دینا ہوگی‘ نادار طلباءکی امداد اور ریٹائرڈ ملازمین کو اپنی پنشن بروقت بلاتاخیر ملنے جیسے مسائل کے حل کا نہایت آسان طریقہ یہ ہے کہ فنڈ ریزنگ فورم کے توسط سے جامعہ کے ملک اور بیرون ملک مقیم بالخصوص برسرروزگار صاحب ثروت سابق گریجویٹس سے رابطہ کرکے ان کی 
اعانت حاصل کی جائے ‘ ملک اوربیرون ملک کار خیر اوربے لوث خدمت کے جذبے سے سرشار مخیر شخصیات اورانجمنوں کا تعاون حاصل کرنا بھی ناممکن کام نہیں اس طرح جامعہ کی انتظامیہ فیکلٹی اور معاون نان ٹیچنگ سٹاف میں سے ہر فرد اپنے اثر و رسوخ اوررسائی کے مطابق حکومت مختلف اداروں اور شخصیات کی اعانت کے حصول کی کوششوں کیساتھ ساتھ اپنی مراعات یا الاﺅنسز یا تنخواہ میں سے ماہانہ ایک فلیل حصہ پنشن انڈومنٹ فنڈ اور غریب طلباءکے تعلیمی اخراجات کے فلاحی یا امدادی فنڈ کے لئے کم از کم پانچ سال تک مختص کرے تو پھر دیکھنا کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ ایسے میں ملازمین کی مراعات میں کٹوتی اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے ان کے بچوں کی قدرے فیس مقر کرنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی ‘ بہرکیف یہ ایک قابل عمل تجویز تھی جو اس سے قبل بھی ایک آدھ مرتبہ پیش کی گئی ہے مگر عمل درآمد سامنے نہیں آیا ‘ غالباً ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ان کی تمام تر ضروریات پوری کرنے اور درپیش مالی مسائل کے حل کی ذمہ داری حکومت پوری کرے گی ہر چند کہ یہ ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے مگر ملازمین کا یہ آس لگائے بیٹھنا ان کی خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔