مشہور مصنف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنی یاداشتوں میں بیان کرتے ہیں کہ جس روز میں ڈیرہ غازی خان پہنچا مجھے معلوم نہےں تھا کہ شہر میں کس سے ملاقات ہوگی مجھے فکر تھی کہ کون میرا میزبان اور رہنما ٹھہرے گا اور تشویش تھی کہ رات قیام کہاں ہوگا ‘سٹیشن پر اتر کر سب سے پہلے میری ملاقات سوچئے کس سے ہوئی ہوگی وہی شخص جو گیٹ پر کھڑا مسافروں سے ٹکٹ لیا کرتا ہے جو نہی میں نے بتایا کون ہوں اور کہاں سے آیا ہوں‘یوں لگا کہ میرے لئے سٹیشن ہی کا نہےں دلوں کا گیٹ بھی کھول دیاگیا ٹکٹ کلکٹر صاحب نے اتنی گرمجوشی سے ہاتھ ملائے کہ ساری فکر دور اور ساری تشویش رفع ہوگئی‘ کہنے لگے کہ ڈیرہ غازی خان آنا مبارک ہو ہم آپ کا خیر مقدم کرتے ہےں۔میں نے کہا....سنیے ¿ آپ کے شہر میں کوئی کالج ہوگا؟ میں وہاں جانا چاہتا ہوں انہوں نے جھٹ ایک نوجوان کو آواز دی‘دیکھو عابدی صاحب کو تانگے پر بٹھاﺅ تانگے والے سے کہو کہ انہےں ڈگری کالج لے جاﺅ اور تین روپے سے زیادہ نہ لے اگلے ہی لمحے میرا تانگہ ڈیرہ غازی خان کی سڑکوں پر دوڑ رہا تھا سرسبز شہر ‘اچھا خاصا نیا ‘کشادہ اور صاف ستھرا ....نیچی عمارتےں ‘دکانیں ہی دکانیں ‘بڑھئی‘کاریگر ریڈیو ٹی وی کی مرمت والے ‘کمہار‘ ٹوکریوں اور ہاتھ کے پنکھوں والے پنواڑی ‘ٹائپسٹ‘فوٹو کاپی ‘فوٹو گرافر غرض یہ کہ اس شہر میں ہر پیشے والے نظر آئے۔ بعد میں ڈیرہ غازی خان کے ڈگری کالج پہنچ گیا ایک استاد سے اپنا تعارف کرایا لمحہ بھر میں خبر پھیل گئی کہ میں آیا ہوں اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سارے استاد آگئے اجنبیت ختم ہوئی ‘کچھ بھی نیا اور پرایا نہ رہا اب مسئلہ یہ نہےں تھا کہ کہاں قیام کروں اور رات کہاں گزاروں اب مسئلہ یہ تھا کہ اتنے بہت سے عزیزوں میں سے کس کی میزبانی قبول کروں اور رات کے قیام کےلئے کس کے اصرار کے آگے اپنی جبیں ٹیکوں آخر طے پایا اور سب ہی اس پر متفق ہوگئے کہ پروفیسر شریف اشرف صاحب کے ہاں پڑاﺅ ہوگا کالج کے کیمپس ہی میں ان کا مکان تھا سارے نئے اچھے اور آرام دہ مکان تھے اکثر کے سامنے سکوٹر اور کاریں کھڑی تھےں کہےں کہےں ائر کنڈیشنز لگے تھے گھر وںمیں ٹیلی ویژن چل رہے تھے اور نہائے دھوئے صاف ستھرے لوگ بھلے لوگ رہے تھے شریف اشرف صاحب کے مکان میں داخل ہوتے ہی برآمدے میں ایک انوکھی چیز دیکھی ایک اتنی بڑی چارپائی بلکہ پلنگ جس پر ایک دو افراد نہےں سارا کنبہ لیٹ رہے تب بھی جگہ بچ جائے ۔میں حیرت سے بولا.... یہ کیا ہے؟
انہوں نے خوشی سے جواب دیا....ہماچی
میں نے کہا....اتنی بڑی؟
انہوں نے کہا یہ تو چھوٹی ہماچی ہے اس سے بڑا ہماچا ہوتا ہے اس پر تو پورا محلہ بیٹھ سکتا ہے۔
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ صبح کی نئی نئی دھوپ ابھی نکلی تھی اور میں موہنجوداڑو کے کھنڈروں کی سڑکوں پر چل رہا تھا دونوں جانب سرخ اینٹوں کی عمارتیں میرے کان میں کہے جارہی تھےں کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی دوڈھائی ہزار برس پہلے یہاں تمہاری طرح بڑے بڑے صاحب ثروت چلتے تھے وہ مہذب بھی تھے وہ باشعور بھی تھے یہاں تمہاری طرح بڑے بڑے صاحب ثروت چلتے تھے وہ مہذب بھی تھے‘وہ باشعور بھی تھے ان کے سینے میں بھی حساس دل دھڑکا کرتے تھے سندھ کا پانی ان کے گھروں کی دہلیز کو چھوکر بہتا تھا تو یہ بستی بھی سیراب ہوا کرتی تھی یہ تالاب بھی بھرا کرتے تھے اور پنجوں کے بل سیڑھیاں اترتے اترتے عورتیں آہستہ سے پانی میں چلی جایا کرتی تھےں تو سطح آب پران کے چمکیلے بال بھیل جاتے تھے۔میں موہنجوداڑو کی گلیوں میں اتر گیا کہےں آنگن دیکھے کہےں چوبارے ‘کہےں طاق دیکھے‘ کہےں دریچے ‘شہر کی فصیلیں دیکھیں اور بیچوں بیچ پہاڑی کی طرح کھڑا ہوا کشانوں کا اسٹوپا دیکھا‘ دیواریں سرگوشیاں کرتی رہےں بتاتی رہےں کہ ان گلیوں میں بیل گاڑیاں کس طرح اناج لاتی تھےں۔ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ کسی واقعے کا تذکرہ دلچسپ انداز میں کرنے کافن ہے۔