ریڈیو نے آواز کا تعلق بھی خوب بنایا اور آواز کی ایک الگ دنیا ہے جہاں کے رشتے ناطے بھی اسی طرح مضبوط ہوتے ہیں جیسے عام زندگی میں، اس حوالے سے معروف براڈ کاسٹر رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ مجھے کراچی سے کچھ دور ٹھٹھہ کے ایک گاﺅں میں جانے کا اتفاق ہوا، گاﺅں کے کچے پکے مکان تو اونچی جھاڑیوں کے گھیرے میں چھپے ہوئے تھے، ان کا مہمان خانہ گاﺅں سے باہر بناہوا تھا جہاں سرشام چارپائیاں ڈال دی گئی تھیں، لوگ مجھے گھیرے بیٹھے تھے اور مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں، کسی بات پر میں نے قہقہہ لگایا، بعد میں مجھے بتایا گیا کہ گاﺅں کے اندر چارسال کاایک بچہ میرا قہقہہ سن کر چونکا اور ماں سے اپنی سندھی زبان میں کہا کہ وہ ریڈیو والا آگیا۔شاہین کلب کی چٹ پٹی باتوں میں سدھو بھائی کا حلوے کا شوق بہت رنگ بھرتا تھا، ان کے مکالموں میں حلوے کا ذکر ضرورآتا تھا۔ ہمارے ساتھی علی احمد خان جب بی بی سی لندن میں ملازم ہوکر آئے اور ان کے بچے بھی لندن آئے تو بچوں نے اپنے ابا سے پوچھا کہ کیا ہم سدھو بھائی سے مل سکتے ہیں، سدھو بھائی کو دعوت دی گئی، ان کیلئے مزے مزے کی چیزوں کے علاوہ بہت سا حلوہ پکایا گیا اور سدھو بھائی کے سامنے سجا دیا گیا، تب یہ بھید کھلا کہ وہ ذیابیطس کے مریض ہیں اور حلوہ یا کوئی بھی مٹھائی نہیں کھاسکتے۔بچوں نے حیران ہوکر پوچھا”سدھو بھائی، پروگرام میں وہ سب کہنے کی باتیں تھیں؟“کچھ جھینپ کر اور کچھ شرما کر بولے ”ہاں“۔ایسی شخصیت تھی ان کی۔ ان کا کمال مکالموں کی ادائیگی میں تھا، ان کی زبان میں ایک ذرا سی لکنت تھی جسے وہ اس خوبی سے چھپاتے تھے کہ ان کی باتوں میں ایک عجیب سا لطافت کا رنگ بھر جاتا تھا، اسی بناءپر لاکھوں سننے والوں کے چہیتے تھے۔ایک روز یہ ہوا کہ ان پر جنہیں ہم لوگ سدھو بھائی نہیں بلکہ شاہ صاحب کہتے تھے، فالج کا حملہ ہوا، انہیں ہسپتال پہنچایاگیا جہاں انہیں فالج کے تمام مریضوں کی طرح لٹالیاگیا اور وہ پروگرام سے غیر حاضر ہو گئے، ہم نے سننے والوں کو بتایا کہ سدھو پر فالج کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں داخل کردیئے گئے ہیں۔یہ اعلان ہونا تھا کہ سننے والوں خصوصاً بچوں کے خطوں کا تانتا بندھ گیا، اتنی دعائیں، اتنی دعائیں کہ شمار کرنا دشوار ہوگیا، ہم نے یہ کیا کہ ان خطوں کے تھیلے بھر بھر کر ہسپتال پہنچانے شروع کردیئے، شاہ صاحب بستر پر لیٹے لیٹے دن بھر وہ خط پڑھا کرتے، دعاﺅں کا یہ سلسلہ تھمنے کانام نہیں لے رہا تھا، ادھر ڈاکٹروں نے محسوس کیا کہ شاہ صاحب کی حالت سنبھل رہی ہے، شاہ صاحب دو تین مہینوں کے اندر صحت یاب ہو کر کام پر واپس آگئے، ڈاکٹر حیران رہ گئے کہ اتنی تیزی سے صحت یابی کیسے ہو گئی، شاہ صاحب ایک سال بعد طبی معائنے کیلئے ہسپتال گئے اور واپس آکر بتایا کہ جو مریض ایک سال پہلے داخل تھے وہ اب بھی داخل ہیں۔“اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ریڈیو جیسے موثرمواصلاتی ذریعے کی اہمیت ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں اب بھی تسلیم کی جاتی ہے تاہم ہمارے ہاں اب سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع نے عوام کو اس سے دور کر دیا ہے۔