مشہور منصف اور براڈکاسٹر رضا علی عابدی اپنے سفر نامے میںایک شہر آمد پر وہاں بدلتے نقشے کو دیکھ کر بیان کرتے ہیں کہ‘ پورے شہر میں لوگ پرانی عمارتوں کو توڑ توڑ کر فلیٹ آفس ‘ مارکیٹیں اور دکانیں بناتے چلے جا رہے ہیں تمام بڑی سڑکوں کے کنارے اب دکانیں ہی دکانیں ہیں اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ عالم میں نے پشاور سے کلکتے تک دیکھا کیا گوجرانوالہ کیا آگرہ ‘ کیا کانپور اور کیا بنارس‘ اس ڈیڑھ ہزار میل کی پٹی میں اتنی مارکیٹیں اور اتنی دکانیں تعمیر ہو رہی ہیں کہ ان کی قطار کو شمار کرنا مشکل ہے راہ میں پڑنے والے دیہات میں بھی دکانوں پر دکانیں بن رہی ہیں ہر شخص کچھ نا کچھ بیچ رہا ہے جو بیچ نہیں رہا ہے وہ کچھ نہ کچھ خرید رہا ہے۔پنڈی کا حال اب یوں ہے کہ پہلے جہاں پنساریوں کی ‘ عطاروں کی ‘ کپڑے اور جوتے والوں کی ‘ حقے اور تمباکو کی دکانیں ہوا کرتی تھیں وہاں اب کمپیوٹر کی ‘ ویڈیو کی اور الیکٹرانکس کے جدید آلات کی دکانیں مال اسباب سے بھری پڑی ہیں جہاں لوگ کھڑے کھڑے مالٹے اور گنے کا رس پیتے تھے اور روٹی کے ساتھ مرغ چھولے کھایا کرتے تھے وہاں اب وہ کھڑے کھڑے جدید مشینوںپرفوٹو کاپی نکلوا رہے ہیں‘ ایک کیسٹ کے گانے پلک جھپکتے دوسرے کیسٹ میں اتروا رہے ہیں جاپانی کیمروں سے نکلی ہوئی امریکن رنگین فلمیں اپنے سامنے دھلوا کر کمپیوٹرائزڈ مشینوں سے چمکدار تصویریں نکلوا رہے ہیں مرغ چھولے اب ائرکنڈیشنڈ ریستورانوں کے اندر ملتے ہیں اور گنے کےساتھ نہ صرف لیموں بلکہ پودینے کے پتے اور ادرک کے ٹکڑے بھی پس رہے ہیں۔اب جاپان کی بنی ہوئی ویگنیں چل رہی ہیں اور ان میں ٹھسے ہوئے لوگ مالکوں کو کوس رہے ہیں کہ پوچھا نہ گچھا جب جی چاہا کرایہ بڑھادیا۔“ اس منتخب اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوتبدیلیاں طرز زندگی میں آرہی ہیں ان سے کوئی ملک اور کوئی خطہ محفوظ نہیں بلکہ تمام دنیا اس کا شکار ہے اور اس کی وجہ شاید ذرائع ابلاغ اور نقل و حمل کے ذرائع میں ترقی آنا ہے جس نے پوری دنیا کو ایک گاﺅں کی شکل دی ہے اور ایک جگہ پر پیش آنے والے واقعے کے بارے میں چند لحظوں کے اندر دنیا کے دوسرے کونے میں واقع لوگ جان جاتے ہیں۔ ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہمیاں امیر الدین صاحب اپنے دادا کے بارے میں بتارہے تھے‘ لاہور گورنمنٹ کالج 1875ءمیں انہوں نے بنایا تھا ‘بڑی ہی ٹھوس عمارت ہے وہ ٹھیکیدار تھے مگر بہت دیانتدار تھے ‘میری شادی پر انہوں نے علاقے کے ہر شخص کو دوسیر مٹھائی تقسیم کی تھی‘ بہت سستا زمانہ تھا‘ شادی کے کھانے پر فی کس چار آنے خرچ ہوتے تھے ‘جس میں پلاﺅ‘ دہی ‘قورمہ ‘زردہ اور فرنی وغیرہ ہوتی تھی‘ میاں صاحب نے کھانے والوں کا حال بھی مزے لے کر سنایا کہنے لگے ‘اس وقت لوگوں میں عزت نفس بہت تھی‘ شادی بیاہ میں دسترخوان بچھائے جاتے تھے اور ان پر کھانا چن دیا جاتا تھا کیامجال کہ کوئی مہمان کھانے کو ہاتھ بھی لگائے ‘صاحب خانہ کہتا تھا‘ بسم اللہ تب کھانا شروع ہوتا تھا اور آج کل لوگ ایک دوسرے کے آگے سے ڈونگے کھینچتے ہےں‘میاںامیر الدین صاحب تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے‘ لاہور میں23مارچ 1980ءکو قرار داد پاکستان منظور ہونے کا منظر انہوں نے بہت قریب سے دیکھا ‘میں نے پوچھا کہ اسکے بعد مسلمانوں کی کیا کیفیت تھی کہنے لگے بات یہ ہے کہ اس سے پہلے مسلمانوں کے پاس کوئی Objectiveنہےں تھا وہ مل گیا پھر تو کیفیت بالکل بدل گئی ‘ہرطرف لے کے رہےں گے پاکستان کا نعرہ تھا‘ اس مختصر اقتباس کا حاصل مطالعہ بزرگوں کے ساتھ وقت گزار کر ان سے ماضی کے اہم اور سبق آموز واقعات کے حوالے سے جاننے کا شوق ہے جس سے نئی نسل دور ہوتی جار ہی ہے ۔اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ روپے پیسے کی ریل پیل کے اثرات ہیں جس نے سب کچھ بدل دیا ہے اور اب ہر جگہ کی وقعت مارکیٹ اور خرید و فروخت کے حوالے سے ہے ‘ایک وقت تھا کہ گاﺅں اور شہر کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق تھا اور لوگ گاﺅں سے سودا سلف لینے شہر جاتے جہاں زندگی ہنگامہ خیز ہوتی ، جبکہ دوسری طرف گاﺅں میں شور شرابے سے دور پرسکون زندگی کا سفر جاری رہتااب وہ فرق وقت گزرنے کے ساتھ کم سے کم ہوتا گیا ہے اور جس طرح ہنگامہ خیز زندگی شہروں میں ہے ، دیہات میں بھی اس سے ملتی جلتی زندگی ہے ۔گاﺅں میں بھی اب ہر چیز پیسوں پر ملنے لگی ہے۔