شک اور غلط فہمی

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی ایک نشری تحریر میں بیان کرتے ہیں کہ ایک روز کسی انگریز خاتون نے صالح آپا کو بتایا کہ اگر پلاٹینم کے زیورات کو موٹے باجرے کے آٹے میں رکھا جائے تو ان کی چمک میں بڑا اضافہ ہوتا ہے اور یہ بہت صاف ستھرے ہوجاتے ہےں آپا صالح کو بھی اس خاتون کی بات بڑی دل کو لگی چنانچہ انہوں نے باجرے کا آٹا حاصل کیااور اس میں اپنے کان کے دوبالے دبادیئے صبح اٹھ کر انہوں نے آٹے کی پڑیا کھولی اور وہ حیران رہ گئیں کہ آٹے میں صرف ایک ہی بالا تھا اور دوسرا بالا موجود نہےں تھا اب وہ پریشان ہوگئیں کیونکہ پلاٹینم کا بالا کچھ کم قیمت کا تو ہوتا نہےں اس کمرے میں سوائے ان کے اور ارشد بھائی(ان کے خاوند) کے کوئی تھا بھی نہےں اب جب ارشد بھائی غسل خانے سے شیو بنانے کے بعد باہر نکلے تو آپا صالح کہتی ہےں کہ مجھے پہلی مرتبہ باوجود اس کے کہ وہ میرے خاوند ہےں اور ہماری شادی کو 21برس ہوگئے ہےں لیکن وہ مجھے چہرے سے ایک چور سے نظر آئے اور ایسے محسوس ہواکہ انہوں نے راتوں رات وہ بالاچرالیا ہے اور وہاں پہنچانے کی کوشش کی ہے جہاں میری منگنی سے پہلے ا ن کی کسی دوسری رشتہ دار لڑکی کے ساتھ منگنی طے ہورہی تھی اب ارشد 
بھائی اور صالح آپا کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہوگئی اور وہ شک وشبہ میں زندگی بسر کرنے لگے پانچویں روز اس کمرے سے تھوڑی سی بدبو کے آثار پیدا ہوئے شام تک وہ بدبو کافی بڑھ گئی پھر یہ ڈھونڈیا پڑی کہ وہ بدبو کہاں سے آرہی ہے چنانچہ سارے کونے کھدرے تلاش کئے گئے اور ایک بڑا سا قالین جو کہ اخباروں کے اوپر پڑا ہوا تھا اور پرانے اخباروں کی ٹوکری اس پراوندھی لیٹی ہوئی تھی جب وہ اٹھا کر دیکھا گیا تو اس کے نیچے ایک چوہا مرا ہوا پڑا تھا اور اس چوہے کے گلے میں وہ پلاٹینم کا بالا پھنسا ہوا تھا۔اس طرح وہ شک ختم ہوا ۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ گاﺅں میں منادی ہوئی کہ ایک تصویر ہے جو بولتی بھی ہے ہم سب بے چین تھے کہ اسے دیکھےں اعلان کیاگیا کہ ریلوے سٹیشن کے قریب بڑے میدان میں وہ بولتی اور حرکت کرتی تصویریں دکھائی جائیں گی چنانچہ وہاں پر ایک بہت بڑا پروجیکٹر لگا دیاگیا وہ نہایت بھدی قسم کا تھا اس پر وہ ریل چڑھائی گئی اور ایک آپریٹر بڑے شہر سے منگوایا گیا اسکے پانچ چار اسسٹنٹ تھے وہاں سے دور ایک جنریٹر لگا کر اور اس کی تاریں پھینک کر بجلی کا بندوبست کیاگیا اور سامنے سکرین تانی گئی ہمارا سارا قصبہ ‘عورتیں بچے بوڑھے ’منجیاں‘ چار پائیاں ڈال کر وہاں بیٹھے ہوئے تھے جب اس سکرین کے اوپر تصویر نظر آتی تھی تو وہ واقعی بولتی تھی اوراس تصویر کا نام تھا ’لیلیٰ مجنوں‘ ان حرکت کرتی تصویروں میں ایک لڑکی لیلیٰ تھی اور ایک لڑکا مجنوں تھا‘ جسے لوگ پتھر مار رہے تھے اور ہم حیرانی سے دیکھ رہے تھے اس کے بیچ میں گانے بھی آتے تھے وہ ریل (فلم کا فیتا) دس منٹ کے لئے چلتی تھی اور پھر اس کو بدلا جاتا تھا اور اسے بدلنے میں تقریباً آدھ گھنٹہ صرف ہوتا تھا‘سارے شائقین وناظرین پھر اپنے منہ سکرین کی بجائے پیچھے پڑے پروجیکٹر کی طرف کرلیتے تھے اور ریل بدلنے کے منظر کا بھی بڑا مزہ تھا آدھ گھنٹے کا یہ تماشا دیکھنا اور پھر دس منٹ 
کا سامنے سکرین پر تماشا دیکھنا اب اس میں آپ کو جو ضروری بات بتانے لگا ہوں‘ وہ یہ کہ وہاں سنسر شپ باقاعدہ طور پر توتھی نہےں لیکن ہمارے ذیلدارصاحب انہوں نے سنسر کا بندوبست کیا تھا تاکہ لوگوں کے اخلاق پر برا اثر نہ پڑے وہ پیتل کی ایک گاگر(گھڑا نما برتن) اور ہاکی لے کر وہاں کھلے میدان میں موجود تھے اور جب کوئی ایسا سین آتا تھاجس میں لیلیٰ مجنوں کے قریب ہوجاتی تھی اور گانا گانے لگتی تھی تو ذیلدار صاحب گاکر بجاتے تھے اور ان کے گاکر بجانے کی ڈناڈن ڈن ڈن ڈنر۔ کی آواز پورے مجمعے میں سنی جاتی تھی تو ہم سب آنکھیں بند کرلیتے تھے ان کا حکم تھا کہ اخلاق پر برا اثر پڑنے کا اندیشہ ہے لہٰذا آنکھیں بند کرلی جائیں‘خواتین وحضرات ۔ ہم سب اپنی آنکھیں بند کرلیتے تھے کسی نے کبھی کانی آنکھ سے نہےں دیکھا کہ کیا سین چل رہا ہے وہاں حکومت کی طرف سے کوئی سنسر شپ نہےں تھی معاشرے نے خود ہی اپنے اوپر سنسر بٹھا یا ہوا تھا جب وہ دوبارہ گاکر بجنے کی آواز آتی تو سب آنکھیں کھول لیتے تھے۔ “ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ شک کی بیماری سے بچنے کی اور معاشرتی اقدار کی حفاظت کرنے کی اہمیت ہے ۔