رضا علی عابدی کی تحریروں کی خاص بات جہاں ان کا دلکش اسلوب ہے وہاں وہ کسی مقام کے حوالے سے لکھتے ہوئے تاریخی حقائق پر بھی اس طرح روشنی ڈالتے ہیںکہ پڑھنے والاآخر حرف تک پڑھے بغیر نہیں رہتا۔ اپنے ایک سفر نامے میں برصغیر سے ماریشس لے جانے والے غریب لوگوں کی داستان میں وہاں کے محفوظ ریکارڈ میں موجود تفصیل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ کس طرح انہیں غلامی کی زندگی پر مجبور کیاگیا۔ میری ملاقات مرنیا کارٹر سے ہوئی۔ مرنیا تاریخ دان ہیں۔ ان کا تعلق لندن یونیورسٹی سے ہے اور بہت عرصہ سے تحقیق کر رہی ہیں۔میں جوگیا تو انہوںنے پورا دفتر خانہ میرے لئے کھول دیا اور الماریوں سے نکال کر ایک ایک رجسٹر مجھے دکھانے لگیں۔جہازوں سے اترنے والوں کا اندراج الگ تھا۔ انہیں جاری ہونے والے کاغذات کے رجسٹر‘ ان کے جینے مرنے کے رجسٹر‘ ان کے خطوط‘ ان کی درخواستیں‘ ان کی شکایتیں یہ سب وہاں محفوظ تھیں۔میں جہازوں سے اترنے والے جہازی بھائیوں کے اندراج کے رجسٹر دیکھنا چاہتا تھا۔ ہر شخص کی حیرت انگیز تفصیل لکھی گئی تھی‘اسے ہندوستان میں ملنے والا شناختی نمبر‘ پھر ماریشس میں ملنے والا نمبر (جو مرتے دم تک اس کے گلے میں پڑا رہتا تھا) اس کے بعد اس کا نام‘ پھر عمر‘ اس کے بعد ذات‘ پھر قدوقامت اور کاٹھی‘ پھر شناختی نشان‘ اس کے بعد ماں یا باپ کا نام‘ آخر میں گاﺅں اور ضلع کانام‘ بعد میں اس کے اوپر سرخ پنسل سے لکھی ہوئی اس کی مرنے کی تاریخ۔
اسکے بعد مرنیا کارٹر نے مجھے وہ رجسٹر دکھائے جن کے ورقوں پر جہاز سے اترنے والے مزدوروں‘ ان کی بیویوں اور بچوں کی تصویریں بھی چسپاں کی جاتی تھیں‘ یہ تصویریں اتارنے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب جزیرے میںکیمرہ آیا اور مزدور مشقت سے بھاگ کر جنگلوں اور دوسری آبادیوں میں چھپنے لگے۔ مگر وہ کمال کا کیمرہ تھا۔ اس میں تصویر شیشے کی پلیٹ پر اتاری جاتی تھی۔ کہتے ہیںکہ فوٹو گرافر ہر روز اسی سے سو تک تصویریں اتارتا تھا۔ ہر تصویر کے پیچھے مزدور کا نمبر درج ہوتا تھا۔
وہ چہرے‘ ان پر عکس بن کر ابھرتے ہوئے اندر کے جذبات‘ ان پر وہ جا بجا شکنیں‘ سب کا سینہ آگے کو نکلا ہوا‘سب کی گردنیں ذرا ذرا سی تنی ہوئیں’ مسکراہٹ ہونٹوں سے کوسوں دور‘ آنکھیں جیسے افق پر جمی ہوئیں اور ان بجھی ہوئی آنکھوں میں فوٹو گرافر کی مصنوعی روشنی کے دو چمکتے ہوئے نقطے۔“ رضا علی عابدی کی اس تحریر کا حاصل مطالعہ سرمایہ دار ممالک کی جانب سے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے استحصال کی کہانی ہے جو آج تک نہیں بدلی ،تاہم اسکے انداز کچھ بدل گئے ہیں۔اب بھی ترقی یافتہ ممالک جانے والے افراد کی زندگی کی کہانیاں کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں اور انہیں وہاں رہتے ہوئے جس امتیازی سلو ک کا سامنا رہتا ہے اس سے پرانے کالونیل دور کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔یعنی اب بھی سرمایے کا ہی زور چلتا ہے جو ممالک کثیر سرمایہ اور وسائل رکھتے ہیں وہ عالمی سطح پر اپنی رائے کو دوسروں پر مسلط کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔