مشہور مصنف اور ادیب اشفاق احمد اپنی نشری تقاریر میں دلچسپ اور سبق آموز واقعات کے ذریعے سننے اورپڑھنے والوں کوخوشحال زندگی گزارنے کے گر بتاتے، ایک جگہ بیان کرتے ہیں کہ جب میری شادی ہوئی تو وہ ایسا زمانہ تھا جب امیری اور تقاضے اتنے تھے نہیں ‘ اور ہم (میں اوربانو قدسیہ)دونوں اچھے اور درمیانے درجے کے تھے اور ویسے زندگی بسر کر رہے تھے جیسے عام لوگ کرتے تھے لیکن خوش بہت تھے‘ یہ خواہش ہوتی کہ کچھ نہ کچھ اور کچھ ایسی چیزیں ہمارے گھر میں بھی اکٹھی ہوتی رہیں ‘ جیسے نوبیاہتا جوڑے کو آرزو ہوتی ہے گھربنانے کی ‘میری بیوی اپنے غریبی دعوے کے مطابق گھر میں ایسی چیزیں لاتی تھی جو اس کے گھر کو ایسی ہی عزت بخش سکیں جیسا کہ بڑے گھروں کو ملتی ہیں لیکن بے چاری کا بس نہیں چلتا تھا ‘ پھر ہم اچانک بیچ میں امیر ہو گئے ‘ ہمارے امیر ہونے کی ایک نشانی یہ تھی کہ ہمارے گھر میں نئی چیز آئی جو پہلے ہمارے گھر میں نہیں تھی ‘وہ شیمپو کی شیشی تھی ‘اس زمانے میں کسی گھر میں شیمپو ہونے کا مطلب امیر ہونا تھا وہ نو روپے گیارہ آنے کی شیشی تھی رنگ اس کا گہرا سبز تھا اور اس کا منہ بڑا تنگ ہوتا تھا ‘ہم نے امیر ہو کر اس شیمپو کےساتھ اپنے سر کو دھونا شروع کیا اور ہم اتنے خوش ہوئے کہ جیسے دنیا جہاں کی نعمت اور دولت ہمیں مل گئی ہو لیکن چونکہ مالی حالات کچھ اچھے نہیں تھے ‘جب ہم وہ شیمپو استعمال کرتے تھے تو پہلے غسل خانے میں جا کر لال صابن سے سر دھوتے تھے ‘ جب سردھل جاتا تھا تو ہم میں سے جو بھی نہا رہا ہوتا وہ اپنا گیلا ماتھا باہر نکالتا اورجو باہر ہوتا وہ اس شیشی کا ڈھکنا کھول کے شیمپو ایک ٹکا اس پر لگا کر فوراً شیشی سیدھی کر لیتا۔اچھا میں بات کر رہا تھا اپنی امارات کی ‘ ہمارے امیر ہوچکنے کے بعد پھر ہم یہاں ایک امریکی اشاعتی ادار ے فرینکلن سے وابستہ ہوگئے مجھے اس ادارے سے ایک کتاب ترجمہ کرنے کاآرڈر مل گیا اور اس کے ایک ماہ بعد بانو قدسیہ کو بھی اس ادارے سے ایک کتاب مل گئی ‘ ہم نے تین مہینے کی مدت میں اپنی انکم میں اچانک 5 ہزار روپے کا اضافہ کر لیا اس طرح اچانک 5 ہزار روپے مل جانے سے ہمارے پاﺅں زمین پر نہیں لگتے تھے ‘ بانو نے ایک دن مجھ سے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک بہت اعلیٰ درجے کی میز ہونی چاہئے ۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ انہیں دنوں کباڑیوں کے پاس کسی سفارتخانے کا سامان بکنے کےلئے آیا ‘اس سامان میں ایک کمال کی میز تھی اس پر کم سے کم آٹھ افراد کو کھانا دیاجا سکتا تھا وہ ولائیت سے درآمد کی گئی تھی نہایت ہی اعلیٰ درجے کی تھی ‘بانو کے بار باربھاﺅ تاﺅ کرنے سے کباڑیہ بھی تنگ آ گیااور جان چھڑانے کیلئے ایک دن کباڑیئے نے بانو سے کہا کہ ”بی بی ریڑھالاﺅ اوراسے لے جاﺅ اور جگہ مخفی صلاحیتوں کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ہمارے اندر کا جو مخفی خزانہ ہے ‘وہ بھی ہمت‘ جرات اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے اندر کی خوبیاں باہر لانے کےلئے جہد کریں اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ دیں کچھ وقت کےلئے دنیا کے مصائب والم کو بھول جائیں اور بالکل مثبت انداز میں سوچنا شروع کردیں تو ہمارے خزانے باہر آنا شروع ہوجائیں اور ہمیں اپنی جس صلاحیت کا پتہ نہےں ہے‘ اس کا پتہ چلنے لگے جب ہم بچے تھے تو جب دکان سے کوئی چیز لینے جاتے تھے تو دکاندار ہمیں خوش کرنے کےلئے ’جھونگا‘(کھانے کی کوئی تھوڑی سی چیز) دیا کرتے تھے اور بچے بھاگ بھاگ کر دکانوں سے گھر کےلئے سودا لینے کے لئے جاتے تھے‘ ا ب بھی شاید دکاندار دیتے ہوں لیکن میرا خیال ہے صورتحال کافی بدل چکی ہے خواتین وحضرات! میں نے آج آپ پر کچھ زیادہ ہی بوجھ ڈال دیا لیکن یہ مجھ پر کافی بوجھ تھا جو میں نے آپ پر ڈال کر کچھ کم کرنے کی کوشش کی ہے آخر میں اس امید ‘ تمنا اور دعا کےساتھ اجازت چاہوں گا کہ آپ اپنی ذات کو ٹٹولیں گے اور اپنے اندر کے اندھے کنویں کو اپنی ہمت‘عزم اور دوسروں سے محبت اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے جذبے کےساتھ روشن کرنے کی کوشش کرینگے۔“ ان منتخب اقتباسات کا حاصل مطالعہ زندگی کا مشاہدہ کرنے کی اہمیت ہے جس کا احساس ضروری ہے ۔