صبر و تحمل کی دولت

مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد کی نشری تقاریر میں انتہائی دلچسپ پیرائے میں معمول کے واقعات میں سے زندگی بسر کرنے کے بہترین طریقوں کو پیش کیاگیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ انہوںنے جس طرح کے سلیس انداز کو اپنایا وہ بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ اور دیکھا جائے تو کسی بھی لکھاری کی بڑی کامیابی قارئین کے ایک بڑے حلقے تک رسائی اور ان کو اپنی گرفت میں لینا ہے اور اس پیمانے پر دیکھا جائے تو اشفاق احمد کو اس میں حقیقی معنوں میں کامیابی ملی ہے۔ ان کی نشری تقاریر جو کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں اس حوالے سے ایک نمونے کے طور پر موجود ہیں کہ معمول کی زندگی اور عام روزمرہ کے واقعات میں بھی گہرا مشاہدہ رکھنے والے لوگوں کیلئے بہت کچھ نمایاں ہوتاہے جو بصورت دیگر دووسرے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ان کی نشری تقاریر میں سے اقتباس حاضر ہے جس میں اشفاق احمد عجلت و جلد بازی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ یہ عجیب انسانی فطرت ہے کبھی آپ اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو یہ عجیب لگے گی خاص طور پر کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب ہم نے خواہش پیدا کردی تو وہ پوری ہو۔ سب سے پہلے تو آپ کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اس کو فوراً پورا ہونا چاہئے یہی ہے نا ¾کبھی آپ آئس کریم جمائیں ¾ آپ نے آئس کریم والی مشین تو دیکھی ہوگی نا ۔ اب تو بجلی والی آگئی ہے ¾ تو آئس کریم جمانے بیٹھیں اس کا ڈھکنا بار بار نہ کھول کر دیکھتے رہیں کہ جمی ہے یا نہیں۔ اس طرح تو وہ کبھی بھی نہیں جمے گی۔ آپ اس کی راہ میں کھڑے نہ ہوں۔ جب آپ نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس کو بننا ہے ¾اس میں سارا مصالحہ ڈال کر مشین کو چلانا شروع کردیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب وہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔میری اور میری آپ کی ایک بڑی بے چینی ہوتی تھی کہ ہم نے اپنی چتری مرغی کے نیچے انڈے رکھے تھے کہ اس میں چوزے نکلیں گے اور ہم دونوں اس بات کے بہت شوقین تھے اب اس کے تیئس دن بعد چوزوں کو نکلنا تھا ¾ہم میں یہ خرابی تھی کہ ہر تیسرے چوتھے دن بعد ایک دو انڈے نکال کر انہیں سورج میں کرکے دیکھتے تھے ¾آیا ان کے اندر ایمبریو بنا ہے کہ نہیں ¾تو خاک اس میں سے چوزا نکلنا تھا بار بار اٹھاکے دیکھتے تھے اور پھر جا کر رکھ دیتے تھے آخر میں ہماری والدہ نے کہا یہ نہ کیا کرو۔یہ میں آپ کو جیسے کہ پچھلی باتیں بتا رہا تھا اور آئس کریم کی مثال دے رہا تھا ہمارے گھر میں بچے اس وقت بڑے ہو چکے تھے میں تو فرسٹ ائیر میں تھا ہمارے گھر میں ایک کیمرہ آیا اس زمانے میں کیمرہ آنا بڑی کمال کی بات تھی باکس کیمرے بہت کم ہوتے تھے باکس کیمرہ آیا ہمارے قصبے میں آیا لوگ بڑی بڑی دور سے گھوڑوں پر بیٹھ کر دیکھنے آئے اور انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے گھر کیمرہ آیا ہے انہوں نے کہا جی کہ تصویر کھینچنی ہے ¾ذیلدار صاحب آئے اونٹ پر سوار ہو کے کہ تصویر کھینچنی ہے۔بڑے بھائی بی اے میں پڑھتے تھے ان کو اباجی نے باکس کیمرہ لادیا اب اس میں فلم ڈال کے اس زمانے میں شیشے کی پلیٹ ہوتی تھی پتلی سی Negativeکھینچنے کے لئے اس کو ڈال کے تصویر کھینچی ¾ تو پھر ہم بھائی کے گرد جمع ہوگئے ہمیں نکال کے دکھائیں کیسی ہوتی ہے اس نے کہا نہیں ابھی نہیں۔ہم نے کہا ¾ اس کا پھر کیا فائدہ۔ کیمرہ تو یہ ہوتا ہے آپ نے تصویر کھینچی ہے اور ابھی پوری ہو۔تو ہم کو یہ بتایا گیا کہ اس وقت نہیں آتی ہے تصویر لیکن آتی ضرور ہے لیکن ہماری یہ تربیت نہیں تھی ٹریننگ نہیں تھی ہم چاہتے تھے ابھی ہوا ہے تو ابھی اس کا رزلٹ ہمارے سامنے آئے ¾اور ہم کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ صبر و تحمل ہے جو ایک انمول دولت ہے۔ جس کو نصیب ہوئی اس کے سارے کام سلجھ گئے اور جو اس سے محروم رہا ،ا سکے بنائے بنائے کام بگڑ جاتے ہیں۔ ہم اگر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو ڈھیر سارے مسائل ہماری عجلت اور بے ترتیبی کے باعث پیش آتے ہیں۔ اگر ہر کام کو ہم تحمل اور ترتیب سے انجام دینے کی روش اپنالیں تو ہماری بہت ساری مشکلات خود بخود ختم ہوتی جائیں گی اور معاشرے میں اس روش اور رویے کو فروغ دینا یقینا وقت کی ضرورت بھی ہے کہ تیز تر ہوتی ہوئی زندگی میں اگر بے صبری کا مظاہرہ کیا جائے اور جلد نمٹانے کی کوشش میں ترتیب اور ضبط کا دامن چھوڑا جائے تو یقینا معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑنے لگتے ہیں اور پھر اسے سدھارنے میں جو وقت لگتا ہے وہ یہی احساس دلاتاہے کہ صبر و تحمل قیمتی متاع ہے ۔