مشہور مصنف اور ادیب رضا علی عابدی کی زیر نظر تحریر گو کہ کئی دہائیاں قبل کا نقشہ کھینچ رہی ہے تاہم اسے اگر موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو بھی اس سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے۔رضا علی عابدی گجرانوالہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہگوجرانوالہ شاید واحد ایسا شہر ہے جوخود نہیں بلکہ اس کے شہری قابل دید ہیں صحت مند اور ہنر مند!نام پانے میں اس کے باشندوں کی مثال جمنا سے ادھر نہیں ملتی ‘ دنیا کے شہر اپنی مصنوعات اور اپنا مال برآمد کرتے ہیں ‘گوجرانوالہ نے اپنے ناموربرآمد کئے ‘ اپنے اہل علم اور اہل فن بیرون شہر بھیجے‘اس وقت پورے پاکستان میں جدید آفسٹ چھاپے خانے ‘ ہائیڈرالک پریس ‘ کولڈ اسٹوریج ‘ صابن ‘ سیمنٹ اور شکر کے پلانٹ اورطرح طرح کے کارخانے چلا رہے ہیں جن کا ذرا ذرا سا پرزہ یہی گوجرانوالہ اور آس پاس کے شہروں کے مستریوں نے خود ڈھالا ہے اور ایسی ایسی مشینیں بنا کر کھڑی کر دی ہیں کہ نہ صرف ان کی شکل و شباہت پر بلکہ کارکردگی پر بھی مغربی ملکوں کی جدید مشینوں کا گمان ہوتا ہے ۔آپ کسی نئے شہر میں جائیں اور گاڑی سے اتریں تو پہلے کسی ہوٹل کا یا عزیز و اقارب کا پتہ پوچھتے ہیں ‘ میں نے گوجرانولہ میں اتر کر یہ پوچھا کہ وہ مستری اور کاری گر کہاں ملیں گے جو ہر قسم کی مشینیں بنا دیتے ہیں۔مہمان نوازلوگ ہیں ‘ انہوں نے میری انگلی تھامی اور مجھے لے جا کر محمد صدیق صاحب کے سامنے کھڑا کر دیا چھوٹے شہر کے بظاہرچھوٹے سے کاریگر ہیں لیکن صابن سازی کے بڑے بڑے پلانٹ بناتے ہیں۔کہنے لگے کہ اپنی اس خداداد صلاحیت کے معاملے میں پاکستان کے کاریگر دنیا بھر میں مشہور ہیں سات آٹھ برس ادھر اٹلی والوں نے آ کر لاہور میں صابن سازی کا ایک پلانٹ لگایا تھا محمد صدیق نے اس میں ہاتھ بٹایا تھا بس ! لیکن کچھ عرصے بعد وہ خود صابن سازی کے پورے پورے پلانٹ بنانے لگے کہتے ہیں کہ ایک اطالوی ماہر کو استاد کیا تھا بعد میں وہ استاد کو سلام کرنے اٹلی گئے اور مشین سازی کی صنعت دیکھنے برطانیہ پہنچے اس کا بہت دلچسپ قصہ محمد صدیق صاحب نے خود سنایا ‘ جب میں لندن میں گیا تو وہاں ایک ورکشاپ تھی جہاں مشینوں کو ری کنڈیشن کرتے تھے سب سے پہلے انہوں نے یہ سوال کیا کہ آپ پاکستانی ہیں ؟ میں نے کہا جی ہاں پاکستانی ہوں ‘ تو انہوں نے بڑے مایوس لہجے میں کہا کہ آپ برانہ منائیں آپ ذرا یہاں ٹھہر جائیں تو اس کے بعد ہم آپ کو اجازت دیں گے اندرراﺅنڈ لگانے کے لئے اس کی وجہ پھر ہم نے دریافت کی تو کہنے لگے کہ جی پاکستان سے جو بھی آدمی آتا ہے اسے ہم بالکل نئی مشینری دکھاتے ہیں اور کچھ روز بعد پاکستان جا کر دیکھتے ہیں تو وہاں بالکل ویسی ہی مشینری تیار پڑی ہوتی ہے اور حقیقت ہے کہ میرے ساتھ ایسا ہوا میں نے ڈیڑھ مہینہ لندن میں گزارا تو ان لوگوں نے مجھے اتنا وقت دیا کہ جو مشینری آپ دیکھنا چاہتے ہیں اس کو دیکھ لیں لیکن آپ کو سوال پوچھنے کی اجازت نہیں تو بڑی سے بڑی ورکشاپ انہوں نے مجھے دکھا دی لیکن سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی ‘ میں باہر آ گیا۔ “ اس اقتباس کا حاصل مطالعہ ملک میں ہنر مند افراد کی مہارت اور اس سے بھر پور استفادہ کرنے کی اہمیت کااحساس ہے ۔یہ حقیقت تو دنیا نے تسلیم کی ہے کہ پاکستان کے ہنر مندوں کا کوئی جواب نہیں ،رضا علی عابدی نے تحریر میں جس کا اظہار بھی کیا ہے۔ تاہم دوسری طرف دیکھا جائے تو وطن عزیز کے ہنرمندوں کی بہترین صلاحیتوں سے صحیح معنوں میں استفادہ نہیں کیا جا سکا ہے اور دنیا جن کی صلاحیتوں کا اعتراف کررہی ہے ان کی قدر ہم نے نہ جانی ورنہ آج ہمیں جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے اس صورتحال سے ہم کبھی دوچار نہ ہوتے ۔