رضا علی عابدی اپنے سفرنامے میں ماریشس کے مختلف علاقوں کے ناموں کی تفصیل میں لکھتے ہیں‘ماریشس کی انتہائی شمالی نوک کا نام بھی دلچسپ ہے ”راس بد نصیبی“ کہتے ہیں کہ یہاں سمندری جہاز ساحل سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجایا کرتے تھے اب سمجھ میں آیا کہ براعظم افریقہ کے جنوبی گوشے کا نام راس امید کیوں ہے ‘ وہاں پہنچ کر مغرب کے جہاز رانوں کی امید بندھ جاتی تھی کہ اب ہندوستان دور نہیں ‘ شمالی ماریشس کے اس سفر کے دوران گڈ لینڈز کا قصبہ بھی راہ میں آیا‘ حیرت ہے یہ نام فرانسیسی زبان میں کیوں نہیں ‘ گڈ لینڈز میں ہندوﺅں کا ایک بڑا مندر ہے اسلئے وہاں بھی سیاح نہیں جاتے ‘ پجاری جاتے ہیں ‘اس علاقے میں دبے ہوئے اور پانی میں ڈوبے ہوئے خزانوں کی کہانیاں بہت عام ہیں ‘ یہیں وہ لکھ پتی ہندوستان خاندان آباد ہے جن کا دادا کھیتوں میں مزدوری کرنے آیا تھا‘ وہ واحد ہندوستانی محنت کش تھا جسے پتھروں کے نیچے واقعی سونے کے سکے ملے تھے ‘ یعنی کوئی دبا ہوا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا تھا ‘ اب یہ لوگ نہ صرف زمینوں اور کھیتوں کے مالک ہیں بلکہ بڑے تاجر اور کارخانے دار بھی ہیں۔ذرا آگے چل کر پامپل موزز کا گاﺅں ہے ‘ اس لفظ کا مطلب ہے چکوترا‘ کہتے ہیں کہ ولندیزیوں نے جاوا سے چکوترے کا درخت لاکر یہاں لگایا تھا۔علاقوں کے نام رکھنے کے یہ لوگ کیسے کیسے دلچسپ بہانے ڈھونڈ لیا کرتے تھے۔یہیں ماریشس کا مشہور و معروف سرسیو ساگررام غلام بوٹینکل گارڈن (چڑیا گھر اور عجائب گھر کی طرح پودہ گھر) ہے جو ساڑھے تین سو سال پہلے گورنر کے محل کےلئے سبزیاں اگانے کی خاطر قائم کیاگیا تھا پھر یہاں مصالحوںکے درخت لگانے کی کوشش کی گئی بالآخر سینکڑوں قسم کے پام کے درخت اگائے گئے ‘ ماریشس کے طوفان کے سامنے جم کر اگنے والے گنے کی نسل بھی یہیں تیار ہوئی اور 1866ءمیں جب ملیریا کے مچھروں نے تباہی مچانے میں طوفانوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تو دلدلی علاقوں میں رطوبت جذب کر جانے والے درخت بھی یہیں اگائے گئے ‘یہ علاقے خشک ہوئے تب کہیں مچھروں کی افزائش کم ہوئی ‘ سنا ہے کہ اب بھی خوب ہوتے ہیں اور گنے کے کھیتوں کے مالک کی روایت قائم رکھے ہوئے ہیں جو اپنے غلاموں کا خون چوسا کرتے تھے ایک اور مقام پر اسی موضوع کے حوالے سے لکھتے ہیں کہکہ فرانس والوں نے 1721ءمیں ماریشس کو اپنی نو آبادی بنایا اور غلام لانا شروع کئے‘1722ءمیں یہاں مسلمان آئے‘ اذانیں دی گئیں اور نمازیں پڑھی گئیں اور پچاس برسوں کے دوران یہاں پندرہ ہزار غلام آچکے تھے اور چالیس سال بعد ہمارے اس جزیرے میں غلاموں کی تعداد65ہزار تھی‘آپ کا مطلب ہے زر خرید غلام؟جی! زرخرید غلام‘ جوکوڑیوں کے مول لائے گئے اور جن سے مشقت کراکے اس زمین سے سونا اگلوایا گیا۔گوروں نے یہ تو جان لیا کہ ان زمینوں میں ہزاروں مزدور لگا کر بیک وقت بہت زیادہ فصل اُگائی جائے تو اس میں منافع زیادہ ہے چنانچہ ہزاروں غلاموں کو گائے بیلوں کی طرح جوت دیاگیا اور میدان صاف کراکے ان میں اتنا زیادہ گنا اگایاگیا کہ کارخانوں سے شکر ابلنے لگی۔مزدوروں سے بے پناہ محنت کرانے کا یہ تجربہ اتنا کامیاب رہا کہ پھر گویانا‘ ٹرینیڈاڈ‘ جنوبی افریقہ‘ سرینام اور فیجی میں بھی غلاموں کی ڈھلائی شروع ہو گئی اور دنیا کے بازار جھلملاتی جگمگاتی سفید شکر سے بھر گئے۔میں نے پھر بات کاٹی‘ یہ سب کچھ ہوا اور ہمارے انگریز دور بیٹھے دیکھتے رہے؟جی نہیں‘ انہیں آکر رہنا تھا اور وہ آکے رہے۔ ایک روز میرے میزبان مجھے جنوب مشرقی ساحل پر اس جگہ لے گئے جہاں فرانس والوں کو یقین تھا کہ انگریز حملہ کرینگے نیچے ساحل سے لے کر پشت پر واقع پہاڑی کی چوٹی تک اتنے مضبوط اور مستحکم دمدمے اور مورچے بنوائے گئے تھے کہ 1810 سے آج تک ان کا ایک پتھر بھی اپنی جگہ سے نہیں سرکا۔ “ ان اقتباسات کا حاصل مطالعہ سرمایہ دار ممالک کی پالیسیاں ہیں جوآج تک نہیں بدلیں۔