مشہور مصنف اور دانشور اشفاق احمد اپنی ایک نشری تقریر میں ناطوں رشتوں کی کمزور پڑنے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ زندگی کچھ ایسی بے معانی ہوگئی ہے ( میں اسے مصروف تو نہیں کہتا)کہ انسانوں سے تعلقات ٹوٹتے جا رہے ہیں اور اپنے اپنوں سے بہت ہی دور ہوتے جا رہے ہیں۔انسان بڑی آرزو رکھتا ہے کہ وہ اپنوں سے ملتا رہے لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک ہی شہر میں ہوتے ہوئے ¾ایک ہی محلے میں رہتے ہوئے آپ اپنے انتہائی قریبی عزیزوں اور دوستوں سے مل نہیں پاتے‘ میں چھوٹے شہروں کے بارے میں تو کچھ عرض نہیں کرتا ¾ اس لئے کہ وہاں تو خداکا بڑا فضل ہوگا اور وہاں کے لوگ آپس میں ملتے رہتے ہوں گے لیکن بڑے شہر کچھ اس طرح سے اس روئیے کی لپیٹ میں آگئے ہیں کہ وہاں پر رشتوں کے جو معاملات ہیں وہ ٹھیک طرح سے طے نہیں ہو پا رہے۔میری ایک خالہ زاد بہن ہے ¾جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں بہت ہی عزیز اور پیاری تھی ¾ہم آپس میں کھیلتے تھے اور لڑائیاں کیا کرتے تھے ۔ وہ اسی شہر میں ریلوے لائنوں کے اس پاربستی ہے ¾ وہاں رہتی ہے اور میں نہیں جانتا کہ وہ کن حالوں میں ہے۔ اس کے بچے کہاں پہنچ چکے ہیں اس کے خاوند کی پریکٹس اب کیسی ہے ؟میں جب بیٹھ کر اس کا تجزیہ کرتا ہوں کہ یہ سب ہو کیسے گیا ہے میں تجزئیے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ مجھے اپنے ہی ایسے کام ہیں کہ جان نہیں چھوٹتی‘ مثال کے طورپر مجھے اپناپراپرٹی ٹیکس درست کروانا ہے جو غلط آگیا ہے میرے کچھ دوسرے ذاتی معاملات ہیں ¾جن میں مصروف ہو ں یا میں نے اپنے ڈرائیونگ لائسنس کو نیا بنوانا ہے کیونکہ پہلے والا زائد المیعاد ہو چکا ہے ¾وہاں جا کر پتہ چلتا ہے
کہ میں بہت بوڑھا ہوچکا ہوں ¾ میری Eye Sightٹھیک نہیں رہی۔ میں اپنی نظر چیک کروانے کے لئے جاتا ہوں لیکن اس کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لئے مجھے پھر چکر لگانے پڑتے ہیں۔میرا بیٹا لاہور سے ذرا دور رائیونڈ میں رہتا ہے وہاں گیس کی سہولت نہیں ہے ¾لہٰذا مجھے اسے گیس سلنڈر فراہم کرنے کے لئے اس کے پیچھے رائیونڈ جانا پڑتا ہے ہمارے ملازم کو کتا کاٹ گیا تو اسے چودہ ٹیکے لگوانے کے لئے مجھے ہسپتال جانا پڑا۔ وہاں بھی گیا لیکن ریلوے کے اس پار رہتی اپنی بہن کے پاس نہ جاسکا۔ اس کے اور میرے درمیان جو یہ ساری عام سی چیزیں حائل ہوتی رہتی ہیں انہیں دور نہیں کرسکتا۔مجھے گیارہ کتابوں کے دیباچے لکھنا ہیں ¾مجھے مشاعرے کی صدارت کرنی ہے ¾مجھے کہا گیا ہے کہ یہ جو بڑی بڑی فارمی مونگ پھلی ہوتی ہے یہ گلا
پکڑتی ہے اور مجھے اکبری منڈی جاکر چھوٹی اصلی اور دیسی مونگ پھلی تلاش کرناہے ¾میری بہو مجھ سے کہتی ہے کہ آپ سبزی منڈی جا کر میرے لئے ”بروکلی“ لائیں( اس نے کسی کتاب میں پڑھ لیا ہوگا کہ یہ فائدے کی چیز ہے) میں وہ لے آتا ہوں۔میری روح اور جسم کے درمیان اس طرح کی مصروفیت رہتی ہے میں سارے کام کرلیتا ہوں لیکن اپنی خالہ زاد بہن کے لئے چند منٹ یا گھنٹے نہیں نکال پاتا۔ یہ کوئی بڑی مصروفیات نہیں ہیں لیکن یہ زندگی میں حائل ہوتی رہتی ہیں اور سالہاسال چلتی رہتی ہیں اور میں ریلوے پھاٹک کراس نہیں کرپاتا کہ اپنی بہن کا حال احوال معلوم کرسکوں۔“ اس منتخب اقتباس کا حاصل مطالعہ مصنف کی حساسیت ہے جس کو کم ا زکم اس کمی کا احساس تو ہورہا ورنہ تو یہ حالت ہم سب کی ہے مگر ہم میں سے بہت کم ہوں گے جو اس حوالے سے اپنی فکرمندی کا اظہار کرتے ہوں، بلکہ اسے بدلتے وقت کا تقاضا سمجھتے ہوئے اسے قبول کر چکے ہیں۔