چین ہمارادیرینہ برادر دوست ملک ہے جس کی سوچ و فکر ،ترقی و خوشحالی پوری دنیا کےلئے مشعل راہ ہے لیکن عالمی طور پر کچھ بڑی طاقتیں اس کے ”بیلٹ اینڈ روڈ انیشیئیٹو“یعنی بی آر آئی کی شدید مخالفت میں مصروف عمل ہیں البتہ اس منصوبے میں شامل ممالک اس کی حمایت کررہے ہیں تاہم اس کی مخالفت کی ایک وجہ چین کی عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوشش ہے‘چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے متعلق یہ تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اس منصوبے کو اپنی سیاسی، اقتصادی اور عسکری قوت پھیلانے کےلئے استعمال کر رہا ہے اور اس سے ترقی پذیر ممالک اس کے قرضے تلے دب جائیں گے‘ اس تنقید کی وجہ سے ہی چین نے اس منصوبے کےلئے”ون بیلٹ ون روڈ“کی جگہ ”بیلٹ اینڈ روڈ“کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا ہے‘اس منصوبے کی اہمیت کا ادراک پاکستان کو بھی ہے اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر 17سے 18اکتوبر تک بیجنگ میں منعقد ہونے والے اسی بین الاقوامی تعاون کے تیسرے”بیلٹ اینڈ روڈ فورم“بی آر ایف میں شرکت کےلئے چین کا دورہ کرنے والے ہیں‘18 اکتوبر کو”ایک کھلی عالمی معیشت میں رابطے“کے عنوان سے منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی فورم سے خطاب بھی کریں گے‘وزیر اعظم چینی صدر شی جن پنگ اور سینیئر چینی رہنماﺅں کے علاوہ فورم میں شرکت کرنے والے لیڈروں سے دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے اور دوطرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کو وسعت دینے کےلئے سرکردہ چینی تاجروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے ‘یہ دورہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے 10 سال مکمل ہونے پر جاری تقریبات کا حصہ ہے ‘وزیراعظم چین میں اپنی مصروفیات میں سی پیک کی اہم کامیابیوں اور مستقبل کی ترجیحات پر روشنی ڈالیں گے ‘پاکستان میں چین و وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت کی اربوں ڈالر کی استعداد موجود ہے، آئندہ دورہ چین میں پاک چین سٹریٹجک تعلقات، دوطرفہ تجارت، سی پیک اور سیاحت کے فروغ پربھی بات ہوگی‘چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا ہے کہ چین آئندہ ہفتے بیجنگ میں تیسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم برائے بین الاقوامی اقتصادی فورم کی میزبانی کرے گا جس میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن جوگزشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے آغاز کے بعد پہلی بار چین کا دورہ کریں گے اور ساتھ ہی چین کے صدر شی جن پنگ سے سربراہی ملاقات بھی کریں گے‘چین اور روس کے رہنماﺅں کا ایسے وقت میں باہمی تعلقات کو مضبوط تر کرنے کا امکان ہے جب چین اور امریکا کے درمیان اختلافات برقرار ہیں اور روس اور مغربی ممالک کے درمیان تعلقات مخاصمانہ شکل اختیار کر چکے ہیں۔چینی وزارت خارجہ نے بتایا ہے کہ فورم کے موقع پر دو طرفہ ملاقاتیں بھی ہوں گی‘اب تک 130سے زائد ممالک کے مندوبین شرکت کا فیصلہ کر چکے ہیں‘یہ منصوبہ گلوبل ساتھ سے موسوم ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ساتھ تعاون مضبوط کرنے اور مغربی برتری کا متبادل تخلیق کرنے کے چینی عزم کا عکاس ہے ‘واضح رہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، بڑے اقتصادی بلاک کی تشکیل کا منصوبہ ہے جسے چینی صدر نے 10سال پہلے تجویز اور شروع کیا تھا۔اس موقع پر دنیا بھر سے کئی ممالک کے لیڈر، تھنک ٹینکس اور اداروں کے سربراہان بیجنگ میں جمع ہوں گے اور وہ چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے پر بات کر یں گے‘ یہ ایک ایسا وقت ہے جب اس منصوبے کو تنقید کا سامنا بھی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ چینی قیادت بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے ذریعے انہی بین الاقوامی خدشات کو دور کرنے کی کوشش کرے گی‘ہم جائزہ لیں گے کہ کیسے چین ان خدشات کو اس فورم کے جاری اجلاس میں دور کرپائے گا۔”بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو“یعنی بی آر آئی جسے ”ون بیلٹ ون روڈ“کے نام سے بھی جانا جاتا ہے چین کی طرف سے رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے جس کے تحت 66سے زائد ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑا جا رہا ہے۔۔۔بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا مقصد کیا ہے؟بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں کیا شامل ہے اور اس کا مقصد کیا ہے، اس کو بہت سے ماہرین نے اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کم از کم اس بات پر اتفاق ہے کہ ان اقتصادی راہداریوں میں تجارت، نقل و حمل، توانائی، سرمایہ کاری، ثقافتی تبادلہ اور دیگر بنیادی معاشی ڈھانچے شامل ہیں۔چین کی معیشت اس وقت امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے لیکن اگر قوت خرید کے حساب سے تولا جائے تو سب سے بڑی ہے۔جن ممالک کو چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شامل کر رہا ہے ان میں اکثریت ترقی پذیر ممالک کی ہے جو اس منصوبے کو مقامی معیشت میں ترقی کےلئے نہایت اہم موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔تاحال اس بارے میں ایسے مستند اعداد و شمار نہیں ہیں جو یہ ثابت کر سکیں کہ چین کے اس منصوبے سے ان ممالک میں توقعات کے مطابق اہداف کا حصول ہو رہا ہے یا نہیں، مگر دنیا کے کئی دیگر ممالک میں منصوبے پر تحفظات بھی پائے جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ فورم سے خطاب میں چینی صدرانہی خدشات اور تحفظات کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔