اعضا کا عطیہ کون اور کس کو کر سکتا ہے؟

پاکستان میں انسانی اعضا کا عطیہ، پیوند کاری کے قوانین 2009/10 میں نافذ العمل ہوئے جن کے تحت آرگن ٹرانسپلائنٹ اتھارٹی قائم ہوئی۔

یہ قوانین بتاتے ہیں کہ اعضا کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی ہے اور کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا ہے اور ایسا کرنے والوں کے لیے مختلف سزائیں ہیں۔

یہ قوانین بتاتے ہیں کہ جن کی بھی پیوند کاری مقصود ہے، ان کو عطیہ کرنے والے لازمی طور پر اس کے بہن، بھائی یا ماں باپ ہونے چاہییں یعنی انتہائی قریبی رشتہ دار بھی عطیہ کرتے وقت قانون کے مطابق اپنی رضا مندی ظاہر کریں گے۔

قریبی رشتہ دار یعنی کزن، چچا، ماموں وغیرہ سے مخصوص حالات کے اندر انسانی اعضا عطیہ لینے کی اجازت ہے۔

’اس میں بڑا واضح بتانا پڑے گا کہ کیوں انتہائی قریبی رشتہ ماں باپ، بہن بھائی نہیں دے رہے یا نہیں دے سکتے اور قریبی رشتہ دار کزن، چچا ماموں وغیرہ کیوں دے رہے ہیں۔

چالیس سال سے کم عمر کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ کسی سے بھی عطیہ لے سکتے ہیں مگر اس کے لئے بھی عطیہ دینے والے کی قانون کے مطابق رضا مندی لی جاتی ہے۔

’دیکھا جاتا ہے کہ ایسا کسی مجبوری، دباؤ، پیسے کے لالچ میں تو نہیں ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ معالج کا سرٹیفکیٹ بھی لازم ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور بات یہ بھی ہے کہ کوئی اپنی زندگی میں قانون کے مطابق وصیت کر دے تو ایسے میں یہ ہوتا ہے کہ اس وقت دیکھا جاتا ہے کہ کوئی عطیہ لینے والا موجود ہے کہ جس کے ساتھ اعضا کی پیوند کاری ممکن ہو سکتی ہے کہ نہیں۔