پاکستان کو اقتصادی بحران کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لئے ’افسرشاہی‘ کی تشکیل نو وقت کی ضرورت ہے اور یہی وجہ رہی کہ کچھ چند ہفتے قبل وزیراعظم نے پاک پی ڈبلیو ڈی کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مذکورہ ادارے کو نااہل اور کرپشن سے بھرا ہوا قرار دیتے ہوئے اسے ختم کرنے کا فیصلہ اپنی جگہ اہم ہے۔ اس کے چند ہفتوں بعد کابینہ نے حکومت کا حجم بھی کم کرنے کے لئے مختلف وزارتوں کی تعداد کم کرنے پر بھی غور کیا۔ ملک میں ایک بہت بڑی بیوروکریسی ہے جسے مشکلات سے دوچار معیشت کو دیکھتے ہوئے اس کے سائز میں زبردست کمی کی ضرورت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب وزیر اعظم نے پاک پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے وفاقی ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کے لئے پاکستان انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کمپنی کے قیام کی بھی منظوری دی اور وفاقی حکومت کی نگرانی میں تمام صوبائی ترقیاتی منصوبے متعلقہ صوبائی اداروں کے حوالے کئے جائیں گے۔ اس سے کچھ الجھن پیدا ہوتی ہے۔ کیوں کہ ایک محکمہ کو ختم کیا جائے اور اس کی جگہ دوسرا محکمہ بنایا جائے تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ کیا نئے بنائے گئے محکمے کے ملازمین کو بھی یکساں تنخواہیں اور دیگر مراعات دی جائیں گی؟ ملک کے زیادہ تر سرکاری محکمے ضرورت سے زیادہ عملے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ فائدہ اٹھانے والے یقینی طور پر اسے ایک نعمت سمجھتے ہیں لیکن ٹیکس دہندگان کو مراعات نہیں دی
جاتیں۔ مخصوص کاموں کی انجام دہی کے لئے ضرورت سے زیادہ سرکاری ملازمین کو ملازمت دینا ٹیکس دہندگان کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ حکومت ٹیکس دہندگان پر ٹیکس ادا نہ کرنے کا الزام عائد کرتی ہے جبکہ ٹیکس دہندگان کا کہنا ہے کہ ان کی محنت سے کمائی گئی رقم بیوروکریٹس کے شاہانہ اخراجات کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ایک معروف صنعت کار نے ایک بار کہا تھا کہ بیوروکریسی کے دو تہائی کے پاس کرنے کے لئے کوئی کام نہیں ہے۔ بیوروکریسی کی تنظیم نو اور سائز کو کم کرنا ہمیشہ اقتدار میں آنے سے پہلے سیاسی جماعتوں کے منشور کا حصہ رہا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد اس طرح کی تمام اصلاحات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مارچ دوہزاربیس میں اس وقت کے وزیر اعظم (عمران خان) نے اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں وزراء اور مشیروں اسد عمر‘ میاں سومرو‘ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور عبدالرزاق داؤد نے شرکت کی۔ وزیر اعظم نے انہیں ہدایت کی کہ وہ سال دوہزاربیس کے اندر خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کریں۔ چار سال بعد عمران خان کے حکم پر ایک بھی محکمے کی نجکاری نہیں کی گئی۔ اب وزیر اعظم شہباز شریف نے حال ہی میں اپنی ٹائم لائن پر لکھا ہے کہ ”میں زیادہ ایماندار‘ سرشار اور مؤثر بیوروکریسی کے لئے مکمل طور پر پرعزم ہوں جو اعلی معیار کی عوامی خدمت فراہم کرے گی اور گورننس کے معیار کو بلند کرے گی۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کے اپنے فیصلے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان کا یہ فیصلہ اس سڑن کو دور کرنے کی جانب ایک قدم ہے جو نظام کو اندر سے کینسر کی طرح کھا رہی ہے۔ اس وقت ملک کے مسائل میں ایک بڑا مسئلہ کرپشن کا ہے جسے حل کرنے کے لئے سخت احکامات کی ہی نہیں بلکہ ان احکامات پر چیک رکھنے کی بھی ہے‘ کرپشن اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے‘ یہ بیماری ہر دور میں رہی ہے اور ہمیشہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک دور کے اختتام پر اگلے دور میں کرپشن بڑھتی ہی ہے اس میں کمی کبھی بھی کسی بھی دور میں نظر نہیں آئی ہے‘ خاص طور پر سرکاری دفاتر میں تو آپ رشوت دیئے بغیر اپنا کوئی بھی کام نہیں نکلوا سکتے۔ کیا وزیر اعظم کو مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ پاک پی ڈبلیو ڈی واحد محکمہ نہیں ہے جو نااہلی اور بدعنوانی کے کینسر کا شکار ہے۔ کابینہ نے وفاقی حکومت کو اختیارات دینے کے لئے پانچ وزارتوں اور کئی ایس او ایز کو بند کرنے کا فیصلہ کرنے کے لئے بھی کمیٹی تشکیل دی۔ اگر منصوبہ بندی کے مطابق کام کیا جائے تو یہ واقعی قابل عمل ہے تاہم پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز جیسے خسارے میں چلنے والے کچھ بڑے
ادارے اب تک صرف کاغذوں پر بہت کام کرنے کے باوجود نجکاری سے کامیابی سے بچ چکے ہیں۔ پی ایس ایم 2015ء میں بند ہو گئی تھی لیکن اس کے ملازمین کو باقاعدگی سے تنخواہیں مل رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2023ء میں پی آئی اے‘ پی ایس ایم اور ریلوے سمیت آٹھ سرکاری اداروں کو مجموعی طور پر 2201 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بیوروکریٹس‘ اعلیٰ عہدوں سے ریٹائر ہونے والے سرکاری افسران اور ذاتی مفادات ایس او ایز کی نجکاری کی اجازت نہ دینے کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ اصولی طور پر یہ حکومت کا کام نہیں ہے کہ وہ بڑے کاروبار اور صنعتوں کو ریاستی منصوبوں کے طور پر قائم کرے اور چلائے۔ صنعتوں کا قیام اور چلانا ایک ایسا کام ہے جو بنیادی طور پر نجی شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔ نجی شعبے میں صنعتوں کے درمیان صحت مند مسابقت ہے لیکن سرکاری شعبے میں ایسا نہیں۔ اس کے باوجود سینئر افسران، اعلیٰ عدالتوں کے جج اور سفیر باعزت ریٹائر ہونے اور گھر جانے کے بجائے یا تو ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں یا دوسرے محکموں میں یکساں طور پر انعامی تقرریاں چاہتے ہیں؟ جب جونیئر افسران ترقی کے لئے پسینہ بہا رہے ہیں تو ملازمت میں توسیع حاصل کرنا اخلاقی طور پر نامناسب ہے۔ تمام جونیئر افسران ترقی کے لئے بے چین ہیں اور انہیں ان کے جائز مواقع سے محروم رکھنا غیر منصفانہ ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر افتخار اے خان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)