امریکہ افغان جنگ کیسے ہارا

پندرہ اگست دوہزاراکیس کو‘ افغان طالبان خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے اقتدار سے بے دخل کئے جانے کے بیس سال بعد فتح کے ساتھ کابل میں واپس آئے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی جانب سے افغانستان پر جو حکومت مسلط کی گئی تھی وہ تاش کے گھر کی طرح منہدم ہو گئی۔ تیس اگست دوہزاراکیس تک‘ آخری امریکی فوجی افغانستان سے چلا گیا جس سے ایک طویل ترین امریکی جنگ اور افغانستان میں امریکی فوجی مہم جوئی کی افسوسناک داستان کا خاتمہ ہوا۔ افغانستان میں امریکی جنگ کے نتیجے میں ہزاروں امریکی فوجی اور اس کے اتحادیوں کے فوجی ہلاک ہوئے اور اس کے علاؤہ امریکی خزانے کو تقریباً تین کھرب ڈالر کا نقصان بھی ہوا‘ اس عمل میں لاکھوں افغان ہلاک یا بے گھر ہوئے‘ اس جنگ نے افغانستان میں بڑے پیمانے پر مادی تباہی بھی مچائی‘ افغانستان میں امریکی مہم جوئی ویت نام میں شکست کے بعد اس کی سب سے بڑی فوجی شکست کا باعث بنی‘ یہ اپنے اہداف اور مقاصد کے حوالے سے امریکی حد سے تجاوز‘ ناقص تزویراتی منصوبہ بندی کی افسوسناک کہانی تھی جس نے فوج کو کامیاب نتائج کے لئے سیاسی ذرائع کو نظر انداز کرنے‘ افغان تاریخ اور ثقافت سے لاعلمی اور انتہائی قدامت پسند معاشرے پر اجنبی ثقافتی اقدار مسلط کرنے کی گھناؤنی کوشش پر زیادہ زور دیا۔افغانستان کے دو اہم ترین علاقائی ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کے ساتھ بھی ناکافی مشاورت اور پالیسیوں میں ہم آہنگی تھی۔ سب سے بڑھ کر‘ امریکی شکست نے دور دراز اور ثقافتی طور پر اجنبی ممالک کو متاثر کیا۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی حملے کے اصل مقاصد جیسا کہ صدر بش نے سترہ اپریل دوہزاردو کو اپنے بیان میں عوامی طور پر کہا تھا وہ بنیادی طور پر تین تھے۔ القاعدہ کو شکست دینا اور اسے ختم کرنا‘ جس نے نائن الیون کے حملے کئے۔ طالبان حکومت کی جگہ افغان عوام پر واشنگٹن کی پسند کی حکومت مسلط کرنا جس نے القاعدہ کو پناہ گاہیں فراہم کیں۔ اور افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام۔ امریکہ کا آخری مقصد بلاشبہ افغان معاشرے کو مغربی ثقافتی اور سیاسی اقدار کی روشنی میں تبدیل کرنا تھا۔امریکہ نے افغانستان پر حملے اور اس کے بعد کی گئی فوجی کاروائیوں کے ذریعے القاعدہ کو نیست و نابود کرنے اور اسے شکست دینے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی۔ وہ بون کانفرنس کے بعد نسبتاً آسانی کے ساتھ طالبان کی حکومت کو اپنی پسند کی حکومت سے تبدیل کرنے میں بھی کامیاب رہا تاہم نئی افغان حکومت مستحکم نہیں تھی کیونکہ اسے غیر ملکی فوجی مداخلت کے ذریعے اقتدار میں لانے اور افغانستان میں وسیع البنیاد سیاسی حمایت کا فقدان تھا چونکہ اس پر شمالی اتحاد کے عناصر کا غلبہ تھا لہٰذا یہ نہ صرف طالبان سے بلکہ زیادہ تر پشتونوں سے بھی الگ تھلگ ہوگیا جو ملک کی سب سے بڑی نسلی برادری تھے۔ سال دوہزارسات سے دوہزارنو تک افغانستان میں برطانیہ کے سفیر رہنے والے شیرڈ کاؤپر کولز نے دوہزارگیارہ میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ”کیبلز فرام کابل“ میں تسلیم کیا تھا کہ ”بون میں ہونے والا تصفیہ (طالبان کی شکست) کی صورت فاتحانہ امن تھا جس سے شکست خوردہ افراد کو الگ رکھا گیا اور یہ کہ اس تصفیے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا آئین اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب تک مغرب موجودہ صورت حال کو سہارا دینے کے لئے افغانستان میں رہنے کے لئے تیار رہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت مغرب نے افغانستان میں مکمل فتح حاصل کرنے کی جستجو میں کم از کم جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے‘ معاہدہ ورسیلز کے تباہ کن نتائج پر مطلوبہ توجہ نہیں دی تھی لہٰذا‘ یہ صرف وقت کی بات تھی کہ طالبان دوبارہ متحد ہوں گے اور افغانستان میں امریکہ کے مسلط کردہ سیاسی نظام کے لئے سنگین چیلنج بن جائیں گے۔ بالکل ایسا ہی ہوا۔ اسٹریٹجک سطح پر سال دوہزارتین میں عراق پر امریکی حملے نے افغانستان سے امریکی توجہ اور وسائل کو جنگ کے ایک اور تھیٹر کی طرف موڑ دیا‘ جس سے طالبان کو شورش شروع کرنے کا موقع ملا جس کی شدت میں وقت کے ساتھ بتدریج اضافہ ہوا اور بالآخر امریکہ پیچھے ہٹ گیا۔امریکہ نے افغانستان میں جو بنیادی غلطی کی وہ یہ تھی کہ وہ کم از کم ابتدائی طور پر وہ القاعدہ اور افغان طالبان کے درمیان فرق کرنے میں ناکام رہا‘ جو اپنے رجعت پسند کے نظریئے کے باوجود افغان سیاسی منظر نامے میں اہم سیاسی جماعت تھی اور اب بھی ہے۔ (مضمون نگار ریٹائرڈ سفیر اور مصنف ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جاوید حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


جنوری دوہزارپندرہ میں وائٹ ہاؤس کے پریس سیکرٹری جوش ارنسٹ نے واضح کیا کہ ”طالبان اور القاعدہ کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے“ اور اس کو ”مسلح شورش“ قرار دیا۔ واشنگٹن نے سیاسی جہت کو نظر انداز کرنے کے لئے اپنی حکمت عملی کی فوجی جہت پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی غلطی بھی قرار دیا۔ اگر اس نے سیاسی جہت پر مناسب توجہ دی ہوتی تو وہ دوہزارگیارہ سے بہت پہلے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر چکا ہوتا بظاہر امریکی فوج امریکی فوجی قبضے کی پہلی دہائی کے دوران افغانستان میں سیاسی تصفیے کی راہ میں حائل تھی۔ فروری دوہزارگیارہ میں اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے امریکی انتظامیہ کی جانب سے ایشیا سوسائٹی سے اپنی تقریر میں افغانستان میں تصفیے کے سفارتی راستے کی عوامی طور پر توثیق کی تھی۔امریکی فوجی قبضے کے خلاف طالبان کی مزاحمت کو اس لئے بھی تقویت ملی کیونکہ واشنگٹن نے مغربی لبرل اور ثقافتی اقدار کو مسلط کرکے انتہائی قدامت پسند اور مذہبی افغان معاشرے کو تبدیل کرنے کی گمراہ کن کوشش کی تھی۔ اقدار کے اس ٹکراؤ نے بہت سے افغانوں کو الگ تھلگ کر دیا جو بصورت دیگر طالبان کی قیادت والی مزاحمت سے دور رہ سکتے تھے۔ آخر میں امریکی قیادت والی نیٹو افواج کی طرف سے طاقت کا غیرضروری طور پر اندھا دھند استعمال کیا گیا جس سے شہری املاک کو بھاری نقصان پہنچا اور خواتین اور بچوں سمیت بے گناہ شہریوں کی جانوں کا ضیاع ہوا‘ اس کے باعث افغان طالبان کی شورش میں زیادہ شدت پیدا ہوئی۔ امریکی فوجی قبضے کے خلاف کامیاب جدوجہد میں طالبان کی ثابت قدمی بالآخر امریکہ اور طالبان کے درمیان اُنتیس فروری دوہزاربیس کے دوحا معاہدے کا باعث بنی۔ یہ معاہدہ‘ جس میں بنیادی طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلاء کو مرکزی نکتہ بنایا گیا تھا اور اس انخلا کے بدلے میں طالبان کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو بیرونی ممالک کے خلاف دہشت گردی کی سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے‘ نے امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت کا خاتمہ کردیا۔ ستمبر دوہزاربیس میں دوحا امن مذاکرات‘ جس کا وعدہ دوحا معاہدے میں کیا گیا تھا‘ بے نتیجہ رہا۔ اس کے بعد کے مہینوں میں افغان حکومت کی طاقت میں مسلسل کمی اور طالبان کا عروج دیکھنے میں آیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ طویل ترین امریکی جنگ‘ جو جزوی طور پر طالبان کو شکست دینے کے لئے شروع کی گئی تھی‘ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ افغانستان میں امریکی شکست پاکستان کے لئے اہم سبق ہے تاہم‘ اس کا الگ سے جائزہ لیا جانا چاہئے۔ (مضمون نگار ریٹائرڈ سفیر اور مصنف ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جاوید حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)