بجلی کا بحران اور ملک کی اقتصادی مشکلات ساتھ ساتھ چل رہی ہیں اور دونوں مسائل کا حل الگ الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مربوط و مشروط بیان کیا جاتا ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ بجلی کے شعبے کی حالت زار پر تنقید کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا جبکہ دوسری طرف اس بات کا مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ بجلی کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ تشویشناک حد تک پہنچ چکا ہے ہیں اور بجلی کی فی یونٹ قیمت بمعہ محصولات اکیس سینٹ تک پہنچ چکی ہے جو ایک عام صارف کی قوت خرید سے بہت زیادہ ہے۔ ماہرین اقتصادیات اِس صورتحال کے لئے ڈرامائی کردار ”زومبی“ کی تشبیہ استعمال کر رہے ہیں کہ بجلی کا پیداواری شعبہ قومی معیشت کے دیگر حصوں کا خون چوس رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کا فی الوقت اور حتمی حل یہ بھی تجویز کیا جاتا ہے کہ بجلی کے پیداواری شعبے کے دیوالیہ پن کا اعلان کیا جائے اور اِس پورے شعبے کی مکمل اصلاح کی جائے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام بھی آسان نہیں اور چونکہ اقتصادی مسائل کسی ایک شعبے تک محدود نہیں اور ایک شعبہ دوسرے شعبے
سے منسلک بھی ہوتا ہے تو یہ پیچیدہ باہمی انحصار اس بات کو ناممکن کی حد تک مشکل بنا رہا ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ ابتدا آمدنی کے لحاظ سے اچھے اور اخراجات کے لحاظ سے بُرے اثاثوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور اس طرح مرحلہ وار اصلاح کی جا سکتی تاکہ توانائی کے شعبے کا مالی اور عملی علاج تلاش کیا جا سکے۔نجکاری کمیشن نے تجویز کیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کرنے والے تین اداروں (ڈسکوز) جن میں آئیسکو، فیسکو، اور گیپکو شامل ہیں سے اصلاحات کا آغاز کیا جائے۔ اس عمل کو کابینہ کی کمیٹی برائے نجکاری اور دیگر متعلقہ فورمز سے منظوری بھی حاصل کرنی ہوگی لیکن خوش آئند ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی اصلاح کا منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک بروقت اُور ضروری اقدام ہے جس کے لئے ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سفارش کی گئی ہے اور ایشائی ترقیاتی بینک نے کراچی الیکٹرک کے مالی استحکام کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔قومی اقتصادی مسائل کا حل نجکاری اختیار کرنے میں ہے کیونکہ یہ عمل اگر حکمت عملی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے تو فوری نتائج دے سکتا ہے۔ نجکاری طویل المدتی منصوبہ بندی کی متقاضی ہوتی ہے۔ نومبر دوہزارچوبیس ’کے الیکٹرک‘ سے متعلق اصلاحات اور نئے معاہدوں کو مکمل کرنے کا ہدف طے کیا گیا ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس منصوبے کو مالیاتی بندش کے لئے مزید نو سے دس ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس قسم کی سست روی سے کام نہیں چلے گا اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ بروقت ریگولیٹری منظوری بھی ضروری ہے۔ کے الیکٹرک کی نیت مقامی وسائل کے ذریعے بیس لوڈ جنریشن کو متوازن کرنے کی ہے۔ یہ پھر ایک ضروری حکمت عملی ہے کیونکہ درآمد شدہ ایندھن کا استعمال فی الحال قومی سطح پر تھرمل پاور جنریشن کے لئے کیا جا رہا ہے اور اس انحصار کو کم کرنے کی ضرورت ہے جس کے بغیر بجلی کی پیداواری لاگت میں
کمی نہیں لائی جا سکتی۔ آئندہ پانچ سے سات برس میں‘ توانائی کے متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کرنا ہو گیاور اسی سے مناسب بیس لوڈ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے جس سے دیگر دیگر شعبوں کے لئے بھی ایک مثال قائم کی جا سکتی ہے تاہم ان اصلاحات کے لئے مارکیٹ کے حالات کا سازگار ہونا ضروری ہے۔نجکاری ضروری ہے تاہم اس کی کامیابی کے وعدے اور زمینی حقائق الگ الگ حکمت عملیوں کا تقاضا کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے حالیہ اجلاس کے بعد جاری کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں بارہ سے چودہ گھنٹے بجلی کا تعطل کرنا پڑ رہا ہے۔ بجلی کی کمی نہ ہونے کے دعوو¿ں میں اس قسم کی صورتحال سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں جو روزگار کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ فیصلہ سازوں کو اصلاحات کی پائیداری کے ساتھ کفایت شعاری کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے اور یہی اسٹریٹجک تبدیلی (اصلاح) کے لئے ضروری ہے جو مسائل کے حل کے لئے امید کی آخری کرن ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مجیب اللہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)