تحفظ ماحول کی عالمی کوششوں میں ”اوزون تہہ کے تحفظ“ کو خاص اہمیت حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال ”اوزون کے تحفظ کا عالمی دن“ بھی منایا جاتا ہے۔ رواں برس کے لئے اِس دن کا موضوع ”آب و ہوا کے تحفظ کی کوششوں اور اقدامات کو آگے بڑھانا“ ہے۔ یہ عالمی دن 1987ء میں مونٹریال پروٹوکول پر دستخط کی یاد میں منایا جاتا ہے جس کا مقصد اوزون کی تہہ کو ختم کرنے والے مادوں کو مرحلہ وار ختم کرنا تھا۔ اوزون ہماری فضا میں گیسوں کی ایک حفاظتی پرت ہے جو زمین پر زندگی کو سورج کی نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعوں سے محفوظ رکھتی ہے۔اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے کی اہم وجوہات اوزون ڈیپلیٹنگ سبسٹینز (او ڈی ایس) ہیں جن میں سی ایف سی، ایچ سی ایف سی، ہیلونز، میتھائل برومائڈ، کاربن ٹیٹراکلورائڈ اور میتھائل کلوروفارم نامی گیسیں شامل ہیں۔ یہ مادے ریفریجریٹرز، ائر کنڈیشنرز، آگ بجھانے والے آلات وغیرہ میں استعمال ہوتے ہیں۔ بین الاقوامی برادری نے مونٹریال پروٹوکول کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لئے مختلف اقدامات کے ذریعے اوزون پرت کے تحفظ کے لئے مربوط کوششوں کا آغاز کر رکھا ہے۔ مذکورہ حکمت عملی اس طرح سے تشکیل دی گئی ہے کہ او ڈی ایس کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لئے مختلف ڈیڈ لائنز مقرر کی جائیں تاکہ یہ ایک کامیاب ماحولیاتی معاہدہ بن جائے۔پاکستان نے بھی اوزون پرت کے تحفظ میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں اور پاکستان میں او ڈی ایس کے خاتمے کے لئے متعدد عملی اقدامات کئے گئے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اوزون کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان جلد اوزون تہہ کو نقصان پہنچانے والے مادوں کی پہلی نسل کو مرحلہ وار ختم کرے گا اور اس سلسلے میں جنوری دوہزار تک ایچ سی ایف سی میں پچاس فیصد کمی کی گئی ہے۔ پاکستان اس وقت سال 2025ء تک اوزون تہہ میں 67.5 فیصد کمی کے ہدف کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہے اور اس مقصد کے لئے بہت سی صنعتوں کو اوزون دوست ٹیکنالوجیز کی طرف منتقل کیا گیا ہے۔مونٹریال پروٹوکول کی کامیابی سے بہت سے سبق سیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور ایجادات کے استعمال کو فروغ دیتا ہے۔ یہ واضح طور پر ان اہم شعبوں کی بھی وضاحت کرتا ہے جن پر او ڈی ایس کو مرحلہ وار ختم کرنے کے لئے توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ کثیر الجہتی فنڈ اور ادارہ جاتی مدد نے ممالک کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ ماحول دوست حکمت عملیاں اپنائیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ قوموں نے ایک دوسرے کی حمایت اور اپنے معاشی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عملی اقدامات کے ذریعے اپنے عزم کا اظہار کیا۔ مانٹریال پروٹوکول کو کامیابی سے نافذ کرنے اور اس کے مقاصد کو حاصل کرنے کی ایک اور وجہ تعمیل کا طریقہ کار ہے۔ اس طرح کی سنجیدگی اور عزم نے تمام ممالک کو اوزون پرت کے تحفظ کے واحد ایجنڈے کی طرف راغب کیا ہے۔ سال دوہزارچوبیس کے بین الاقوامی اوزون ڈے مونٹریال پروٹوکول کے کردار پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ مونٹریال پروٹوکول کی کامیابی سے نہ صرف اوزون کی تہہ کی حفاظت ممکن ہوئی ہے بلکہ اس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ سے لڑنے میں بھی مدد ملی ہے۔ رواں سال کا موضوع ممالک پر زور دیتا ہے کہ وہ پیرس معاہدے کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کریں اور کرہئ ارض کو گلوبل وارمنگ سے بچانے کے لئے گرین ہاؤس گیسوں (جی ایچ جی) کو کم کرنے کے لئے عملی کوششیں اور خاطرخواہ اقدامات کریں۔اوزون پرت کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے اقدامات کثیر الجہتی اور اجتماعی اقدامات کی کامیابی کی مثال ہیں جن پر عمل درآمد پیرس معاہدے کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے تاہم پیرس معاہدے کے تحت کئے گئے وعدوں کو عالمی براداری پورا نہیں کر رہی جیسا کہ پاکستان سے بھی کئی ایک وعدے کئے گئے جن پر عمل درآمد تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ’سی او پی 28‘ کی صورت عالمی کوششوں میں کرہئ ارض کا درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک کم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ امیر ممالک جو اپنے غیر مستحکم ترقیاتی عمل کے منفی ماحولیاتی اثرات کو بھول گئے وہ اب بھی اپنے معاشی مفادات کے حصول میں مصروف ہیں۔ پیرس معاہدے کے تحت، ممالک نے اپنے کاربن کے اخراج کو کم کرنے اور قومی طے شدہ شراکت (این ڈی سی) میں اپنے پرعزم اہداف تک پہنچنے پر اتفاق کیا لیکن حقیقت میں، عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں اضافہ ہو رہا ہے‘ جو پیرس معاہدے کی کامیابی کے دعوؤں پر سوال ہے۔دنیا کے کئی ممالک کو آب و ہوا کی ہنگامی صورتحال کا سامنا ہے اور اِس صورتحال کی سنگینی کو سمجھنے اور مونٹریال پروٹوکول کی کامیابی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کو کم کرنے کے متعدد طریقے ہیں جن کے لئے کرہئ ارض کی حفاظت کے لئے کثیر الجہتی نکتہئ نظر اپنانے اور اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)