دنیا جانتی ہے کہ دو دہائیوں تک جاری رہنے والی طویل ترین امریکی جنگ کے بعد‘ افغانستان میں امریکی کامیابیوں کے حوالے سے کچھ بھی ایسا نہیں کہ جس پر فخر کیا جا سکے۔ نائن الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد افغانستان پر امریکی حملے ہوئے لیکن بعدازاں اقتدار سے بے دخل کئے جانے والے افغان طالبان پندرہ اگست دوہزاراکیس کو کابل میں ڈرامائی طور پر داخل ہوئے اور اُنہوں نے دوبارہ حکمرانی قائم کر لی ہے۔ دسمبر دوہزارایک میں بون کانفرنس کے بعد امریکی اسلحے کی طاقت سے قائم ہونے والی افغان حکومت تاش کے گھر کی طرح منہدم ہو گئی جس سے ثابت ہوا کہ یہ افغانستان کے عوام پر مسلط کی گئی مصنوعی سیاسی حکومت تھی۔ ستمبر اکتوبر دوہزارچوبیس کے خارجہ امور کے شمارے میں ’بائیڈن ڈاکٹرائن کیا تھا؟‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس کی مصنفہ جیسیکا میتھیوز نے نشاندہی کی کہ واضح حقیقت یہ تھی کہ امریکہ اگست دوہزاراکیس سے بہت پہلے (افغانستان میں) جنگ ہار چکا تھا تاہم اپنے عروج کے وقت، افغانستان میں امریکہ کے تقریباً ایک لاکھ فوجی تھے جبکہ اس کے نیٹو اتحادیوں کے تقریباً تیس ہزار فوجی تعینات تھے۔ افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط جنگ کے دوران 2461امریکی ہلاک اور 20744 فوجی زخمی ہوئے۔ جب تک افغانستان سے امریکی فوج کا انخلاءہوا، اس وقت تک اس نے افغانستان میں لڑائی پر 2 کھرب ڈالر سے زیادہ خرچ کئے جو ایک دن میں 300 ملین (تیس کروڑ) ڈالر کے مساوی بنتا ہے۔ جب ٹرمپ انتظامیہ نے 29 فروری 2020ءکو افغان طالبان کے ساتھ امریکی فوجیوں کے انخلاءکے معاہدے پر دستخط کئے تو طالبان کی زیر قیادت مزاحمت نے کابل میں کٹھ پتلی حکومت برقرار رکھنے کے امریکی عزم کی کمر توڑ دی‘ جو پہلے ہی چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر ملک کے بیشتر حصوں پر اپنا کنٹرول کھو چکی تھی۔امریکہ افغانستان میں القاعدہ کو ختم کرنے میں کامیاب رہا لیکن اس کے علاو¿ہ اس کے پاس افغانستان میں اپنی دو دہائیوں پر محیط فوجی مہم جوئی کے لئے دکھانے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ انخلا¿ کے معاہدے پر ٹرمپ انتظامیہ کے تحت دستخط کئے گئے اور بائیڈن انتظامیہ نے اس پر عمل درآمد کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے لئے دو طرفہ حمایت اور افغانستان میں جاری لڑائی کے لئے امریکی عوامی حمایت میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا ناقابل تردید حقیقت یہ تھی کہ امریکہ صرف اس وقت ملک سے دستبردار ہوا جب افغان طالبان کی قیادت میں مزاحمت نے اسے بڑھتے ہوئے جانی و مالی نقصانات کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ افغانستان میں امریکی تزویراتی ناکامی سے کئی اہم اسباق حاصل ہوتے ہیں جنہیں پالیسی ساز نظر انداز نہیں کر سکتے۔ شاید سب سے اہم سبق یہ ہے کہ اگرچہ افغانستان پر حملہ کرنا اور فتح کرنا آسان لگتا ہے لیکن افغانستان پر غیر ملکی قبضے کو طویل عرصے تک برقرار رکھنا یا انتہائی آزاد افغان عوام پر غیر معینہ مدت تک کٹھ پتلی حکومت مسلط کرنا کہیں زیادہ مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈ میکملن نے مشورہ دیا تھا کہ سیاست کا پہلا اصول یہ ہے کہ افغانستان پر حملہ نہ کیا جائے۔ اس مشورے کی صداقت اس سے پہلے بھی سرد جنگ کے دور میں افغانستان پر حملہ کرنے اور کنٹرول کرنے کی ناکام سوویت کوشش سے ظاہر ہوئی تھی۔ پاکستان نے 1990ءکی دہائی میں افغانستان سے نمٹنے کی کوششوں میں کئی ایک غلطیاں کیں۔ 1980ءکی دہائی میں افغان جہاد کی کامیابی، جس کے نتیجے میں فروری 1989ءمیں افغانستان سے سوویت فوج کا انخلاءہوا اور اپریل 1992ءمیں سوویت قائم نجیب اللہ حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا جس نے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ باہمی فائدہ مند تعاون کو فروغ دینے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان اور ایران دونوں نے افغان تاریخ کو نظر انداز کیا جس میں افغانستان پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں کے بارے میں خبردار کیا گیا تھا۔پاکستان کو اہم ہمسایہ ملک کی تاریخ اور اپنے اہم اقتصادی اور ثقافتی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے افغان پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے اور افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔ ہمیں افغان طالبان کی ہٹ دھرمی اور رجعت پسند پالیسیوں کے باوجود افغانستان کے داخلی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ افغانستان کی داخلی پالیسیوں اور حکومتی نظام کا تعین کرنا ہمارا کام نہیں بلکہ افغان عوام کا کام ہے۔ ہمیں 1990ءکی دہائی کی غلطیوں سے بچنے کے لئے افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک بالخصوص ایران، چین، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے علاو¿ہ روس کے ساتھ بھی اپنی افغان پالیسی کو مربوط کرنا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جاوید حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
جہاں تک افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ٹھکانوں کا تعلق ہے تو بہتر ہوگا کہ موجودہ افغان حکومت کو ایک اعلیٰ سطحی مذاکرات میں شامل کیا جائے۔
تاکہ پاکستان میں کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے افغان سرزمین کے استعمال کو روکا جا سکے۔ جیسا کہ افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کا تجربہ ظاہر کرتا ہے، اس طرح کے معاملات سے فوجی ذرائع کے بجائے سیاسی طور پر نمٹنا بہتر ہوگا۔ پاکستان کے اندر دہشت گردی کے مسئلے کے حل کے لئے دہشت گرد سرگرمیوں کو روکنے میں ثابت قدمی کا مظاہرہ وقت کی ضرورت ہے اس کے علاو¿ہ اپنے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان کی قیادت کو آئین کے فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے افغانستان کو بات چیت کی پیش کش کرنی چاہئے۔