سپریم کورٹ کی ساخت کیا ہونی چاہئے؟ یہ موضوع قومی بحث اختیار کر چکا ہے جس میں عوام اور قیادت دونوں ہی الجھے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں جبکہ پاکستان سے باہر کی دنیا مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر توجیہات مرکوز کئے ہوئے ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر کیا ہونی چاہئے؟ یہ بحث بھی قومی سطح پر جاری ہے جبکہ عالمی سطح پر بحث کا موضوع کلاؤڈ فراہم کنندگان کے گرد گھوم رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان جیسی سیاسی شخصیات پاکستان کی قومی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں جبکہ پاکستان سے باہر تمام تر توجہ سیمی کنڈکٹر پاور ہاؤسز پر مرکوز ہے۔مستقبل کی اقتصادی ترقی تکنیکی ترقی کی عکاس ہوگی، جس میں عالمی معیشت اور ٹیکنالوجی کا ارتقا ہو گا اور ان کا آپس میں گہرا تعلق بھی ہو گا۔ ٹیکنالوجی کا مستقبل مصنوعی ذہانت کے ڈویلپرز، سیمی کنڈکٹر پروڈیوسرز، کلاؤڈ فراہم کنندگان، ڈیٹا سینٹرز اور سائبر سکیورٹی ماہرین کے گرد گھومتا ہے۔ عالمی سطح پر ٹیکنالوجی معاشی ترقی کا زینہ ہے۔ یقینی طور پر، وہ ممالک اور کاروبار جو مصنوعی ذہانت، جدت اور ڈیجیٹل
تبدیلی کو ترجیح دیتے ہیں وہی مستقبل کی قیادت کریں گے۔پاکستان میں قومی سطح پر بحث برائے بحث جاری رہتی ہے جس کا کچھ بھی حاصل وصول نہیں ہوتا اور اس قومی مشغلے کے سنگین معاشی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج کا سرمایہ سال دوہزارسترہ میں ایک سو ارب ڈالر سے کم ہو کر سال دوہزارچوبیس میں صرف تیس ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ دریں اثنا، پاکستان سے باہر کی دنیا جی پی یو (گرافکس پروسیسنگ یونٹس) اور ٹی پی یو (ٹینسر پروسیسنگ یونٹس) کے بارے میں سوچ رہی ہے، جو اے آئی ایکو سسٹم کے ضروری اجزأ ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے ایکو سسٹم میں اہم کھلاڑی ایپل نامی کمپنی ہے جس نے اپنی مارکیٹ کیپٹلائزیشن سال دوہزارسترہ میں 861 ارب ڈالر سے بڑھا کر سال دوہزارچوبیس میں 3.29 کھرب ڈالر تک پہنچا دی ہے، یہ دنیا کی سب سے سرمایہ دار کمپنی ہونے کا اعزاز رکھتی ہے۔ مائیکروسافٹ، جو روایتی طور پر اپنے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم، آفس سوٹ، اور ایزور کلاؤڈ پلیٹ فارم کے لئے جانا جاتا ہے، نے بھی اسی عرصے میں نمایاں ترقی کی ہے اور اس کے اثاثوں کی مالیت تین اعشاریہ دو کھرب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ڈیپ لرننگ اور مشین لرننگ جیسے پیچیدہ مصنوعی ذہانت کے کاموں کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھنے والے جی پی یوز کی تیاری میں سرفہرست این ویڈیا کی مارکیٹ ویلیو 2.8 کھرب ڈالر ہے، جو مصنوعی ذہانت اور جدید کمپیوٹنگ کی طرف عالمی تبدیلی کو مزید اجاگر کرتی ہے۔پاکستان دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی کا نظام رکھتا ہے۔ جوہری بجلی گھر رکھنے والے بتیس ممالک میں سے ایک کی حیثیت سے پاکستان توانائی کی پیداوار کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے، جس میں تانبا، لوہا، کرومائیٹ، اینٹی
مونی، باکسائٹ، جپسم اور نمک شامل ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کے پاس پیٹرولیم کے قابل ذکر ذخائر ہیں، جن کا تخمینہ نو ارب بیرل سے زیادہ ہے۔ اس کے شیل گیس کے ذخائر کافی ہیں، جو 105 کھرب مکعب فٹ (ٹی سی ایف) ہیں۔ ملک میں قابل تجدید توانائی کے امکانات بہت زیادہ ہیں، شمسی توانائی 2.9 ملین میگاواٹ اور ہوا سے توانائی ممکنہ طور پر 3لاکھ 46ہزار میگاواٹ پیداواری صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کو وسائل کی کمی کے بجائے انتظامی امور میں فیصلہ سازی کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ پاکستانی اگر خود کو سیاسی خلفشار سے نکال لیں تو باقی دنیا کی طرح مصنوعی ذہانت سے چلنے والے مستقبل کی جانب گامزن ہو جائیں گے لیکن ہم ماضی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چھوٹے موٹے جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان نیند سے بیدار ہو کر ترقی کرے بصورت دیگر خدانخواستہ عالمی سطح پر ہونے والی ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائے گا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)