محترمہ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کا سحر اور اُن کے سیاسی نظریات آج بھی زندہ ہیں۔ آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی قد آور شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی جن کی زندگی 2007ء میں ختم ہوئی۔ سترہ سال بعد محترمہ کی غیر موجودگی پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ پاکستان کئی چیلنجوں سے نبرد آزما ہے۔ محترمہ کی برسی صرف سوگ منانے کا لمحہ نہیں بلکہ اس بات پر غور کرنے کا وقت ہے کہ پاکستان نے کیا کھویا جب ایک قاتل کی گولی نے ہمارے دور کے سب سے بہادر رہنما کو خاموش کرا دیا۔بے نظیر بھٹو سیاسی رہنما سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھیں۔ وہ امید کی علامت، تبدیلی کی کرن اور پدرشاہی معاشرے میں خواتین کے ناقابل تسخیر جذبے کا ثبوت تھیں۔ مسلم اکثریتی ملک کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون کی حیثیت سے، انہوں نے مردوں کے غلبے والی دنیا میں ان گنت نشانات چھوڑے تاہم ان کا سفر قطعی طور پر آسان نہیں تھا۔ اس میں ذاتی قربانیاں، سیاسی خیانت اور انتھک مخالفت شامل تھی بے نظیر کی نظریں ہمیشہ ایک بہتر پاکستان کے وعدے پر جمی رہیں۔ راولپنڈی میں ان کا افسوسناک قتل صرف ایک رہنما کی موت نہیں تھا بلکہ ایک ایسے پاکستان کے خواب کی تکمیل تھا جہاں جمہوریت پھل پھول سکے، جہاں خواتین مردوں کے شانہ بشانہ چل سکیں اور جہاں انصاف اور مساوات کے اصولوں پر عمل کیا جا سکے۔ اِس بات پر کوئی بھی حیران ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر بے نظیر بھٹو ہوتیں تو آج پاکستان کیسا ہوتا؟ کیا ہم ایک مضبوط جمہوریت، زیادہ متحد قوم اور ایک ایسا معاشرہ دیکھ سکتے تھے جو ترقی کو قبول کرنے کے لئے زیادہ تیار ہو؟بے نظیر صرف ایک سیاست دان نہیں تھیں۔ وہ ایک بصیرت کا نام تھیں۔ ان کی پالیسیاں اکثر اپنے وقت سے آگے کی ہوتیں۔ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور خواتین کو بااختیار بنانے پر توجہ مرکوز کرتیں۔ وہ ایک ایسے پاکستان پر یقین رکھتی تھیں جہاں صنف یا طبقے سے قطع نظر ہر بچے کو ترقی کے مواقع میسر ہوں۔ وہ غربت سے لے کر انتہا پسندی تک ملک کو درپیش چیلنجوں سے بخوبی آگاہ تھیں اور انہوں نے ان مسائل کو عزم کے ساتھ حل کیا لیکن بے نظیر کی وراثت صرف اس بارے میں نہیں ہے کہ انہوں نے کیا حاصل کیا بلکہ یہ اس بارے میں بھی ہے کہ انہوں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا۔ ان کے بچے بختاور، بلاول اور آصفہ ان کی سیاسی اقدار کے زندہ مجسم ہیں۔ بختاور میں ایک ایسی عورت کی جرأت دیکھی جا سکتی ہے جو اپنے دل کی بات بے خوفی سے کرتی ہے۔ بلاول میں ہم ایک ایسے نوجوان کی ابھرتی ہوئی قیادت دیکھتے ہیں جس نے اپنی ماں کی ذمہ داری سنبھالی ہے اور پاکستانی سیاست کے خطرناک پانیوں کو اپنی ہی طاقت کے ساتھ عبور کیا ہے جبکہ آصفہ میں ہمیں وہ کرشمہ اور ہمدردی نظر آتی ہے جو بے نظیر کی شخصیت کی پہچان تھی۔ یہ سب مل کر ان کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ بے نظیر کے چلے جانے کے باوجود ان کا جذبہ اور مشن زندہ ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے تحت ترقی پسند پاکستان کے لئے جدوجہد کی گئی۔ بے نظیر بھٹو اقلیتوں کے حقوق کی وکالت کرتی تھیں۔ ان کی پالیسیوں میں نوجوانوں کو بااختیار بنانے کو ترجیح دی گئی، تعلیم، روزگار کے مواقع اور پاکستان کی نوجوان نسل کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لئے سیاسی شرکت پر زور دیا گیا۔ بینظیر بھٹو کی قیادت نے سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے درمیان اتحاد کے احساس کو فروغ دیتے ہوئے صوبائی اختلافات کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ تمام خطے قومی تانے بانے میں شامل محسوس ہوں۔ ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی ایک ایسے پاکستان کی علامت تھی جہاں تنوع کا جشن منایا جاتا تھا اور پس منظر سے قطع نظر ہر شہری کا ملک کے مستقبل میں حصہ تھا۔بے نظیر بھٹو نے ایک بار کہا تھا کہ جو لوگ مجھ سے ناراض ہیں وہ ایسا اس لئے ہیں کیونکہ میں ایک عورت ہوں اور میں بھٹو ہوں۔ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ایک عورت ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں جوان ہوں اور یہ فخر کی بات ہے کہ میں بھٹو ہوں۔ یہ الفاظ ان کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔ ایک ایسی زندگی جو ہمت اور اپنی شناخت پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ بسر کی گئی اور اس نے پاکستان کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر شرمیلا فاروقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بٹ کوائن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سماجی ارتقائ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شام کی آزادی؟
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: راہئ نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سال 2024ء کی یادیں
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جنوبی ایشیا بنا بھارت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: مخفی پہلو
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سال 2025: غیرمستحکم دنیا
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹیکنالوجی پر مبنی پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شام کی نئی حکومت اور ٹرمپ کارڈ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام