ترقی یا محرومی

چولستان کینال منصوبے نے ایک بار پھر پاکستان میں پانی کی تقسیم پر کشیدگی کو ہوا دی ہے جس سے پنجاب اور سندھ کے درمیان دیرینہ تنازعہ مزید گہرا ہوگیا ہے اگرچہ اس منصوبے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ نہر صحرائے چولستان کے لئے انتہائی ضروری ہے لیکن خطرہ یہ ہے کہ سندھ جو پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے اِس کی محرومی میں اضافہ ہوگا۔ سندھ کو پانی کے شدید بحران کا سامنا ہے، دریائے سندھ سے کوئی بھی اضافی رخ موڑنا اس کی زراعت، معیشت اور ماحولیات کے لئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔زراعت سندھ کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو پاکستان کی جی ڈی پی میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ سندھ ملک کی فوڈ سیکورٹی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، جو پاکستان کے 36 فیصد چاول، 29 فیصد گنے اور 25 فیصد کپاس پیدا کرتا ہے۔ سندھ میں پانی کے حقوق کے لئے جدوجہد بھی کوئی نئی بات نہیں۔ 1991ء کے آبی معاہدے میں دریائے سندھ کے پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانا اہم تھا لیکن سندھ نے بار بار اپنے حقوق کے لئے آواز اُٹھائی۔ ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور دادو جیسے اضلاع کے کسان پہلے ہی پانی کی شدید قلت کا شکار ہیں، جس کی وجہ سے بہت سے کسان اپنی زمینیں چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ دریں اثنا پنجاب اپنے آبپاشی نیٹ ورک کو وسعت دے رہا ہے جس کا بنیادی طور پر مقصد سیلاب سے بچاؤ ہے لیکن پنجاب میں خشک سالی کے دوران بھی نہروں کی وسعت کا کام جاری رکھا گیا‘ جس کی وجہ سے سندھ اپنے جائز حصے سے محروم ہوا ہے۔ زراعت کے علاوہ، اس منصوبے کے ماحولیاتی اثرات بھی تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ دریائے سندھ اور اس کے مشرقی معاون دریا ستلج، راوی اور بیاس کی زندگی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ 1976ء اور 1998ء کے درمیان ان دریاؤں کا بہاؤ اوسطا 9.35 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) تھا۔ 1999ء سے 2022ء تک صرف 2.96 ملین ایکڑ فٹ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ کوٹری بیراج کے خارج ہونے والے کم پانی کی وجہ سے آبپاش علاقوں کی صورتحال بہت خراب ہے جبکہ ماہرین اِس بات کا ضروری سمجھتے ہیں کہ انڈس ڈیلٹا ماحولیاتی نظام کو برقرار رکھا جائے۔ پانی کی کم فراہمی کے باعث زوال پذیر انڈس ڈیلٹا کی بحالی وقت کی ضرورت ہے۔ تاریخی طور پر تربیلا ڈیم کی تعمیر سے قبل یہ ڈیلٹا 400 ملین ٹن مٹی کے ساتھ
 پھل پھول رہا تھا۔ تربیلا کی تعمیر کے بعد، مٹی کی یہ سپلائی گھٹ کر صرف 126 ملین ٹن رہ گئی۔ ایک زمانے میں آگے بڑھنے والا ڈیلٹا، جو سالانہ 30 میٹر بڑھ رہا تھا، اب پسپائی کا شکار ہے جبکہ سمندر نے ٹھٹھہ، سجاول اور بدین اضلاع کی زرخیز زمینوں کو خراب کرنا شروع کر دیا ہے۔آب و ہوا کی تبدیلی اس نازک منظر نامے کو مزید خراب کر رہی ہے۔ ورلڈ بینک کی جاری کردہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ برفانی ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ کے بہاؤ میں تیس سے چالیس فیصد کمی کا امکان ہے۔ ایسے غیر متوقع ہائیڈرو آب و ہوا کے مستقبل میں بڑے پیمانے پر آبپاشی کے منصوبوں پر کام شروع کرنا نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ یہ تباہی کا باعث بھی بنتا ہے۔ دریائے سندھ کا کم ہوتا ہوا پانی کا بہاؤ توجہ طلب ہے۔ سمندر کے آگے بڑھنے، معدوم ہوتی زرخیز زمینیں اور خشک مستقبل کے خطرے کے پیش نظر فوری اور فیصلہ کن کاروائی کی ضرورت ہے۔ یہی زراعت اور آبپاشی کے تحفظ کے لئے اقدامات یعنی عمل درآمد کا وقت ہے، بصورت دیگر سندھ دریا کے کنارے صدیوں سے آباد تہذیب اور زندگی (خدانخواستہ) خاموش قبرستان بن جائے گی۔ (مضمون نگار پیپلزپارٹی رہنما اور رکن قومی اسمبلی اور قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی رکن ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر شرمیلا فاروقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)