موسمیاتی تبدیلیاں، نقصانات اور بیمہ

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات اور نقصانات سے نمٹنے کا ایک طریقہ ’بیمہ (انشورنس)‘ بھی ہے جس کی جانب دنیا متوجہ ہو رہی ہے کیونکہ ماحولیاتی نقصانات سے دوچار ہونیوالوں کیلئے مالی سلامتی بھی یکساں اہم ہوتی ہے اور تیزی سے بدلتی آب و ہوا کے تباہ کن اثرات کا سامنا کرنیوالوں کیلئے اسے اہم لائف لائن قرار دیا جاتا ہے‘ پاکستان جیسے ممالک کیلئے جہاں موسمیاتی ایمرجنسی کا خطرہ نہیں یہ بیمہ انتہائی اور گہری اہمیت کا حامل ہے۔ جرمنی واچ کی جانب سے موسمیاتی خطرات کے انڈیکس میں سرفہرست دس ممالک میں شامل ممالک کو حالیہ برسوں میں آب و ہوا کی وجہ سے پیدا ہونیوالی آفات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ صرف سال دو ہزار بائیس کے تباہ کن سیلاب نے پاکستان کے ایک تہائی حصے کو متاثر کیا جس سے تین کروڑ تیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور تیس ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا لیکن یہ بحران سیلاب سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھا۔ شدید ہیٹ ویو، جو اکثر درجہ حرارت کو پچاس سینٹی گریڈ سے اوپر لے جاتی ہے، معمول بن چکی ہے، جس سے صحت عامہ متاثر ہے اور حیاتیاتی تنوع کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے، آبی وسائل سکڑ رہے ہیں اور اموات کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خشک سالی نے زرعی پیداوار کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر غذائی عدم تحفظ اور ذریعہ معاش کا نقصان ہوا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں کاشتکاری مقامی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ موسمیاتی بحران کی وجہ سے 2050ء تک پاکستان کی جی ڈی پی میں اٹھارہ سے بیس فیصد کمی متوقع ہے۔ اس پس منظر میں، آب و ہوا کے خطرات کم کرنے کیلئے جدید مالیاتی حل کی ضرورت کبھی بھی اتنی فوری اور ضروری نہیں رہی تاہم، مائیکرو فنانس ادارے پسماندہ برادریوں تک رسائی کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کی اس صلاحیت سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے مطابق، ترقی پذیر ممالک میں آب و ہوا کے خطرے کی انشورنس کی مانگ میں تیزی سے اضافے کا امکان ہے، جس کی مارکیٹ کا تخمینہ 200 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔ یہ اضافہ آب و ہوا سے متعلق آفات کی بڑھتی ہوئی تعدد اور شدت کی وجہ سے ہے، جس نے لاکھوں افراد کو بے گھر کردیا ہے اور کمزور آبادیوں کو غربت کی اندھیری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ اس صورتحال میں ایم ایف آئیز، پسماندہ اور متاثرہ طبقات کی مدد کر سکتی ہیں۔ بنگلہ دیش میں، براک بینک، جو دنیا کے سب سے بڑے این جی او کا درجہ بھی رکھتا ہے نے چھوٹے قرضہ جات کے ذریعے اپنی خدمات میں آب و ہوا کی انشورنس کو ضم کیا ہے اور اس طریقے سے وہ دو لاکھ چھوٹے پیمانے پر کاشتکاری کرنے والوں کی مدد کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی دیگر ممالک میں ہونے والے تجربات اور نتائج کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر طبقات کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا گیا ہے۔ پاکستان میں سال دوہزاربیس کے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ خاندانوں بالخصوص کسانوں کو مالی مدد انشورنس سے کی گئی تھی جس سے انہیں اپنا ذریعہ معاش کو دوبارہ شروع کرنے اور اس کی حفاظت کی ترغیب ملی اور انہوں نے سیلاب کے خلاف مزاحمت رکھنے فصلیں لگائیں۔ سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے مطابق پاکستان میں ایک فیصد سے بھی کم آبادی کسی بھی قسم کی انشورنس کراتی ہے۔ این آر ایس پی، اخوت، کشف اور خوشحالی مائیکرو فنانس بینک جیسے معروف ایم ایف آئیز رسک انشورنس کو مربوط کرکے آب و ہوا سے مطابقت اور لچک کو مضبوط بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے بہت سے اقدامات، اگرچہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہیں تاہم ان سے نچلی سطح پر آب و ہوا کی تبدیلی سے متاثرین کو سہارا ملا ہے۔ مائیکرو فنانس کی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے کلائمیٹ انشورنس تک رسائی ممکن بنائی جا سکتی ہے اور ایسا کرنے سے مالیاتی اعتبار سے زیادہ محفوظ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے براہ راست متاثر طبقات کی مالیاتی مدد کیلئے بیمے کے تصور کو اپنا چاہئے جو کئی ممالک میں رائج ہے۔ موسمیاتی اثرات کو موافق بنانے کیلئے خاطرخواہ کوششیں نہیں ہو رہیں لیکن اس سے متاثرہ طبقات کی مالیاتی مدد کر کے ایک بڑی ذمہ داری خوش اسلوبی سے ادا کی جا سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر زینب نعیم۔ ترجمہ ابوالحسن امام)