ہر سال ہزاروں پاکستانی اعلی تعلیم کے لئے بیرون ملک جاتے ہیں۔ بیرون ملک تعلیم کے دو مراحل ہیں۔ پہلا انڈر گریجویٹ تعلیم ہے جس کا مطلب بیچلر کی ڈگری حاصل کرنا ہے اور دوسرا گریجویٹ تعلیم ہے جس کا مطلب ماسٹر ڈگری کا حصول یا ڈاکٹریٹ کرنا ہے۔ کئی سال پہلے، راقم الحروف بھی بطور طالب علم بیرون ملک آیا اور یہاں سے پہلے انڈر گریجویٹ طالب علم کے طور پر اور پھر گریجویٹ طالب علم کے طور پر تعلیم حاصل کی۔ دہائیاں گزرنے کے بعد جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں بہت خوش قسمت تھا کہ مجھے بیرون ملک داخلہ مل گیا جس کی وجہ سے میں اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب رہا لیکن بیرون ملک تعلیم ہر گزرتے سال پہلے سے مہنگی ہو رہی اور اِس کی وجہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا رجحان ہے۔ بیرون ملک تعلیم جو پہلے متوسط طبقات بھی حاصل کر سکتے تھے اب تقریبا ناممکن ہو چکی ہے کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں زبردست گراوٹ آئی ہے جس کی وجہ سے امریکہ میں اعلیٰ تعلیم انتہائی مہنگا آپشن بن گیا ہے، یہاں تک کہ یا تو آپ کو انتہائی امیر ہونا پڑے گا یا کسی اور ذریعے سے پیسہ کمانا ہوگا تاہم ایک اور قابل عمل آپشن ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکہ میں کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے سے اسکالرشپ یا مالی امداد کی پیش کش حاصل کی جائے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ ایسا کچھ ہو بھی جائے گا اور امریکہ میں کسی ایسے ادارے میں جانے سے بہتر ہے کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی جائے اور لاکھوں روپے کی بچت کی جائے جو تعلیمی معیار کو دیکھتے ہوئے اچھا آپشن نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بہت سی یونیورسٹیاں ہیں جیسے آئی بی اے کراچی، لمز، حبیب یونیورسٹی، زبسٹ، نسٹ، فاسٹ، انسٹی ٹیوٹ آف بزنس مینجمنٹ، بیکن ہاس نیشنل یونیورسٹی، جی آئی کے آئی، جی سی یو یونیورسٹی، کنیرڈ کالج وغیرہ جو کم لاگت قدرے معیاری تعلیم فراہم کرتی ہیں تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ والدین کی اکثریت سمجھتی ہے کہ معیاری تعلیم صرف غیر ملکی ڈگری کی صورت ہی ممکن ہے اور اِس غلط تصور کی وجہ سے وہ اپنی پوری زندگی کی بچت خرچ کر بیٹھتے ہیں جبکہ کم قیمت مقامی آپشنز بھی موجود ہیں۔امریکہ کے علاوہ جو یقینی طور پر دنیا میں اعلیٰ تعلیم کا سب سے بڑا مرکز ہے، پاکستان میں بھی طلبہ کے پاس کینیڈا، برطانیہ یا آسٹریلیا، اور اب تیزی سے یورپ، اور ترکی، ملائشیا، یا متحدہ عرب امارات جیسے ممالک میں تعلیم حاصل کرنے کا آپشنز موجود ہیں۔کینیڈا کو بہت زیادہ تارکین وطن اور بین الاقوامی طالب علموں کو داخلے کی اجازت دینے کے بارے میں داخلی بحث کا سامنا ہے، اور اس کا نتیجہ آنے والے سالوں کے لئے طلبہ کے ویزوں میں نمایاں کمی ہے۔ برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے سے انڈر گریجویٹ سطح پر کسی طالب علم کو ایک سال کی بچت ہوتی ہے کیونکہ وہاں بیچلر کی ڈگری تین سال کے لئے ہوتی ہے جبکہ امریکہ میں یہ چار سال ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک سال کے وقت کی بچت کرتا ہے بلکہ مجموعی لاگت بھی کم ہوتی ہے یورپ کی یونیورسٹیاں امریکہ کے مقابلے میں نسبتاً سستی ہیں اور وہاں زیادہ تر تدریس انگریزی زبان ہی میں ہوتی ہے۔ حالیہ دنوں میں، نیدرلینڈز، جرمنی اور اٹلی کی یونیورسٹیاں پاکستانی طالب علموں میں کافی مقبول ہیں۔ نیدرلینڈز اور اٹلی میں، بڑی اور بڑھتی ہوئی مقامی پاکستانی کمیونٹی بھی موجود ہے جبکہ نئی ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ میں ویزا نظام کو سخت کر دیا گیا ہے اور کینیڈا میں اسی طرح کی متوقع پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں جس کا اثر بیرون ملک تعلیم پر بھی پڑا ہے۔پاکستان میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لئے کونسلنگ کا نظام ناقص ہے یا موجود ہی نہیں۔ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبہ کی اکثریت کو بنیادی طور پر سب کچھ خود کرنا پڑتا ہے، فہرست بنانے سے لے کر درخواستیں بھرنے تک اور مطلوبہ مضامین لکھنے جیسے مراحل تک انہیں خود ہی کام کرنے پڑتے ہیں جن کی وجہ سے غلطیاں رہ جاتی ہیں اور ان کی داخلہ درخواستیں منظور نہیں ہوتیں۔ اندرون یا بیرون ملک تعلیم کے لئے ضروری ہے کہ طلبہ کی رہنمائی اور کونسلنگ کے لئے معیاری اور کم قیمت میں خدمات فراہم کرنے والے ادارے قائم کئے جائیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عمر آر قریشی۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام