ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد عالمی نظام ایک زلزلے سے تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس میں امریکہ نے یو ایس ایڈ جیسے غیر ملکی مداخلت کرنے والے امدادی ادارے کو ختم کر دیا ہے جبکہ مارکو روبیو جیسی اہم ری پبلکن شخصیات نے کھلے عام کثیر قطبی دنیا کے ابھرنے کا اعتراف کیا ہے۔ میکسیکو اور کینیڈا جیسے روایتی اتحادیوں پر محصولات کا نفاذ اور ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ کو ڈنمارک سے ’چھیننے‘ کی اشتعال انگیز دھمکی، ماضی کے سفارتی اصولوں سے ڈرامائی انحراف کا اشارہ ہے۔ اس ہلچل کے درمیان، پاکستان میں کچھ لوگوں نے مسٹر گینٹری بیچ کی سربراہی میں امریکی تاجروں کے حالیہ دورے پر جوش و خروش کا اظہار کیا ہے تاہم، اس طرح کی امید غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ امریکہ سرمایہ کاری اور امریکی مفادات کے گرد گھومتے ہوئی سیاست کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔ بدلتی ہوئے عالمی تبدیلیوں کے باوجود، پاکستانی میڈیا داخلی سیاست پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے، اور اس بات کا بہت کم تجزیہ پیش کرتا ہے کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی پاکستان پر کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں ٹرمپ کے مؤقف کو دیکھتے ہوئے، ان کی دوسری مدت کئی اہم شعبوں میں پاکستان پر اثر انداز ہونے کا امکان ہے۔اپنے پہلے دور میں ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں سخت رویہ اختیار کیا اور فوجی امداد معطل کر دی تھی اور پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام بھی عائد کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سکیورٹی امداد منجمد ہوگئی اور عسکریت پسند گروہوں کے خلاف کاروائی کے لئے دباؤ میں اضافہ ہوا۔ ان کی واپسی کے ساتھ ہی لین دین کی اس سرگرمی کی بحالی کا امکان نظر آتا ہے جہاں پاکستان پر افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اس تناؤ میں مزید اضافہ امریکی کانگریس کی حالیہ قراردادوں نے کیا ہے جن میں پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، خاص طور پر سیاسی جبر اور میڈیا سنسرشپ کے حوالے سے امریکہ خوش نہیں ہے۔ سینیٹر کرس وان ہولن اور نمائندہ رو کھنہ سمیت امریکی کانگریس کے متعدد ارکان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں خاص طور پر عمران خان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امریکی قانون سازوں کی جانب سے مبینہ انتخابی جوڑ توڑ اور سیاسی اختلاف رائے کو دبانے کی مذمت کرنے والی ٹویٹس نے پاکستان کے داخلی معاملات پر واشنگٹن کے مؤقف میں تبدیلی کے بارے میں قیاس آرائیوں کو ہوا دی ہے اگرچہ یہ بیانات براہ راست فوری پالیسی تبدیلیوں میں تبدیل نہیں ہوسکتے لیکن ایک انتباہ کی علامت کے طور پر کام کرتے ہیں کہ پاکستان کو بڑھتے ہوئے سفارتی دباؤ، معاشی پابندیوں یا مزید امداد پر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس طرح دیکھتی ہے۔ اب تک پاکستان صدر ٹرمپ کی ترجیحات میں شامل نظر نہیں آتا۔ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ دوحا معاہدے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کے نتیجے میں بالآخر افغانستان سے امریکی انخلأ ممکن ہوا۔ ان کی دوسری مدت میں جنوبی ایشیا میں امریکی مداخلت میں مزید کمی ممکن دکھائی دیتی ہے اگرچہ اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان پر اس کی افغان پالیسیوں کے حوالے سے سفارتی دباؤ کم ہو لیکن اس سے خطے میں امریکی امداد اور سرمایہ کاری میں کمی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں یو ایس ایڈ کا پروگرام (2024-25ء کے لئے صرف 100ملین یعنی دس کروڑ ڈالر تھا) جو پہلے ہی ٹرمپ کی جانب سے عالمی سطح پر غیر ملکی امداد منجمد کرنے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کے لئے ویزا پروسیسنگ کی معطلی کے باعث ہزاروں افراد پاکستان میں پھنسے ہوئے ہیں جس سے اسلام آباد کو انسانی اور لاجسٹک چیلنجز کا سامنا ہے۔”امریکہ فرسٹ“ ڈاکٹرائن پاکستان کے لئے اہم معاشی چیلنجز پیدا کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے گزشتہ دور حکومت میں تجارتی پابندیاں عائد کی گئیں اور یہ رجحان اب بھی جاری رہ سکتا ہے جس سے پاکستان کی برآمدات متاثر ہوں گی۔ آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں پر امریکہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پاکستان کو قرضوں کی سخت شرائط اور معاشی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایک خاص تشویش نئی تجارتی رکاوٹوں یا پابندیوں کی وجہ سے بھی پائی جاتی ہے۔ امکان ہے کہ تجارتی پابندیاں پاکستان کی اہم برآمدات جیسا کہ ٹیکسٹائل اور زرعی مصنوعات کو براہئ راست متاثر کریں اور اگر ایسا ہوا تو پہلے سے ہی مشکلات کا شکار معیشت کو متاثر کر سکتی ہیں۔چین کے بارے میں ٹرمپ کے محاذ آرائی کے مؤقف سے پتہ چلتا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی بالواسطہ طور پر پاکستان کو متاثر کر سکتی ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) طویل عرصے سے تنازعات کا موضوع رہا ہے اور امریکی حکام نے چین پر پاکستان کے بڑھتے ہوئے معاشی انحصار پر تشویش کا اظہار کیا ہے جیسا کہ ٹرمپ نے بیجنگ کے ساتھ اپنی اقتصادی دشمنی میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان اپنے سب سے بڑے اقتصادی شراکت دار کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لینے کے لئے خود کو دباؤ میں محسوس کر سکتا ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کو بھی واشنگٹن کی جانب سے کڑی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دفاعی خریداریوں اور اسٹریٹجک شراکت داریوں پر امریکی توجہ میں اضافہ بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان نازک توازن کو برقرار رکھنے کی اسلام آباد کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی سے امیگریشن کی سخت پالیسیاں واپس آسکتی ہیں جن کا براہئ راست اثر پاکستانی طلبہ، پیشہ ور افراد اور تارکین وطن پر پڑے گا۔ ان کے پہلے دور حکومت میں امریکہ نے ورک اور سٹوڈنٹ ویزا پر سخت پابندیاں عائد کیں تھیں۔ ایسی پالیسیوں کی بحالی سے امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے یا کام کرنے کے خواہاں پاکستانیوں کے لئے تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یوسف نذر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام