ئٹیکنالوجی کے ساتھ میدان جنگ اور جنگ دونوں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اکثر مخالفین کے حوصلے اور عزم پست کرنے کیلئے نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈا کیا جاتا ہے جو قدیمی حربہ ہے تاہم فوجی کاروائیوں کو انجام دینے کیلئے دستیاب ذرائع تکنیکی ترقی کے ساتھ تیار ہو رہے ہیں۔ آج دنیا اپنے آپ کو انوکھے موڑ پر دیکھ رہی ہے جہاں سوشل میڈیا کی رسائی اور کم قیمت میں دستیابی کی وجہ سے عالمی برادری کو بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے واسطہ ہے۔ سوشل میڈیا فوری طور پر یا دنوں یا چند لمحات میں لاکھوں ذہنوں پر اثر انداز ہونے اور خیالات پر قبضہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک فعال طور پر اس تکنیک کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ ناخواندہ یا ناکافی تعلیم یافتہ قومیں اور گروہ اس کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان حملوں کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ غربت، بیماری، ناانصافی اور ناخواندگی کے ساتھ موبائل فون اور انٹرنیٹ کنیکٹیوٹی کی وسیع پیمانے پر دستیابی نے ہمیں خاص طور پر اپنے مخالفین کیلئے کمزور بنا دیا ہے۔ وہ ہمیں سیاسی، معاشی اور نفسیاتی طور پر کمزور کرنے میں تقریبا کامیاب ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے خلاف اس سنگین اور مہلک ہتھیار کے مؤثر استعمال کو تسلیم کرنے اور اس سے مربوط اور قومی انداز میں نمٹنے کے بجائے ہم اندرونی تنازعات کا شکار ہیں اور ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھاتے ہیں اور اصل مجرموں کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے۔ غلط معلومات آگ کی صورت میں پھیل سکتی ہیں، جو ہائبرڈ جنگ کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد افراتفری پیدا کرنا، بداعتمادی کا بیج بونا، اندرونی لڑائی کو بھڑکانا، موجود تقسیم (اختلاف) کو گہرا کرنا اور نئی تقسیم پیدا کرنا ہے نتیجتاً اب پاکستان ممکنہ لائن پر پولرائزڈ ہو چکا ہے اور تقریبا تمام اہم ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار‘ ایک دوسرے سے محتاط اور حالت جنگ میں ہیں جو نئے ہتھیار سے بری طرح متاثر ہیں کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔ خطرناک غلط فہمی‘ غلط فہمی پھیلانے کا باعث بنتی ہے جیسا کہ ”میں اچھی طرح سے باخبر، عقلمند اور زیادہ وضاحت سے دیکھتا ہوں کہ دوسرے فریق کو کس طرح گمراہ کیا جا رہا ہے یعنی اسے غلط معلومات دی جا رہی ہے۔“ سوچنے کا مقام ہے کہ کون سا ملک یورپ کی ٹاپ ٹیک انفارمیشن لیب کی طرف سے غلط معلومات کی مہم چلاتے ہوئے پکڑا گیا تھا؟ کون سا ملک پاکستان کے نام نہاد دوہرے کردار پر برہم تھا، جس کی وجہ سے اسے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا؟ کس ملک کے سابق اور موجودہ وزرائے اعظم نے کھلے عام پاکستان کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے؟ اب ان کی صلاحیتوں اور اتحادوں پر غور کریں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس معلومات تک بہتر رسائی ہے، وہ حقیقت میں غلط معلومات اور معلومات کی ہیرا پھیری سے متاثر ہونے جیسے خطرے سے زیادہ دوچار رہتے ہیں۔ پاکستان میں پاک فوج کے خلاف جاری جنگ میں اگر ہم صورت حال کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر رہے اور فوری کاروائی کرنے میں بھی ناکام رہے تو تباہ ہو جائیں گے (اللہ نہ کرے)۔ اس حملے کا بنیادی ہدف ہم سب جانتے ہیں کہ مسلح افواج اور پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کرنا ہے۔ دونوں ممالک کی قیادت کو فوری طور پر مفاہمت کرنی ہوگی، مل کر کام کرنا ہوگا اور ملک کو اس زوال سے نکالنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی مرتب کرنا ہوگی۔ اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ فوری طور پر تمام دستیاب مواصلاتی (بشمول سوشل میڈیا) ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے ملک گیر مہم کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کرنا چاہئے تاکہ عوام کو حقیقی خطرات سے آگاہ کیا جاسکے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تمام اداروں اور عوامی پلیٹ فارمز کو غلط معلومات، جعلی خبروں اور جھوٹی کہانیوں نے دبوچ رکھا ہے اور بنا تاخیر کے، ہمیں موجودہ غیر یقینی کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ریفرنڈم کروانا چاہئے اور ایک قومی حکومت کیلئے عوامی منظوری حاصل کرنی چاہئے۔ ایک نیا الیکشن کمیشن اور کم از کم ایک سال کی کولنگ ڈاؤن مدت ہونی چاہئے۔ اس سب کی نگرانی ایک اعلیٰ قومی کونسل کرے جس میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہ، چیف جسٹسز، تمام سیکیورٹی فورسز کے رہنما، میڈیا کے ممتاز پیشہ ور افراد، معروف ماہرین اقتصادیات، صنعت کار اور اعلیٰ قانونی فورمز شامل ہوں۔ اس کونسل کو فیصلہ کن اقدامات کرنے ہونگے جن میں تمام سیاسی شخصیات کو رہا کرنا، جلاوطن صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو معافی دینا اور قومی مفاہمت کو فروغ دینے جیسے امور شامل ہیں۔ آئیے ہم اپنے دلوں اور بازوؤں کو ایک دوسرے کیلئے کھولدیں اور نفرت اور تقسیم کی جگہ اتحاد اور یکجہتی لائیں۔ صرف یہ ایک عمل ہمارے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا سکتا ہے۔ ہم بعد میں روشن مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں لیکن سب سے پہلے ہمیں دشمن کی جاری مہم کو ناکام بنانا ہوگا۔ سمجھنا چاہئے کہ مصالحت کی فوری ضرورت پر بحث کیلئے وقت نہیں بچا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی۔ ترجمہ ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام