مصنوعی ذہانت کا نیا دور

مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) نے عالمی معاشی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ این ویڈیا نامی امریکی کمپنی کے حصص کی قدر چند گھنٹوں کے اندر 600 ارب ڈالر تک کم ہو گئے جس کی وجہ سے نیسڈیک کو تاریخی ٹیک فروخت میں ایک کھرب ڈالر کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اِس معاشی گراوٹ کی وجہ چینی مصنوعی ذہانت کے اسٹارٹ اپ بنام ڈیپ سیک تھا جس نے نہایت ہی کم قیمت میں امریکہ کی مصنوعی ذہانت کی بالادستی کو ختم اور کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اوپن اے آئی، میٹا اور گوگل جیسی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں جدید ترین چپس اور سپر کمپیوٹرز میں اربوں ڈالر خرچ کرتی ہیں جبکہ ڈیپ سیک نے پرانی اور سستی این ویڈیا ایچ 800 چپس کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ڈیپ سیک کے ریاضی، کوڈنگ اور منطق جیسی خصوصیات کا مجموعہ ہے۔ اس انکشاف نے سرمایہ کاروں کو پریشان کر رکھا ہے کیونکہ ڈیپ سیک کی کارکردگی سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ مصنوعی ذہانت کا غلبہ صرف جدید ہارڈ وئر پر نہیں بلکہ الگورتھم کی کارکردگی اور وسائل کو بہتر بنانے پر منحصر ہوسکتا ہے۔ اعداد و شمار میں واضح تضاد اجاگر اس بات سے عیاں ہوا ہے کہ ڈیپ سیک نے اپنا فلیگ شپ اے آئی ماڈل صرف ساٹھ لاکھ ڈالر میں تیار کیا ہے، جبکہ اوپن اے آئی جو کہ امریکہ کی مائیکروسافٹ نامی کمپنی نے تیار کیا ہے اس پر دس ارب ڈالر لاگت آئی۔ امریکی ادارے میٹا اور گوگل مصنوعی ذہانت کی اپنی برتری کو برقرار رکھنے کے لئے سالانہ اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں جبکہ ڈیپ سیک نے این ویڈیا کے انتہائی مہنگے ایچ 100 جی پی یو کی ضرورت کو نظر انداز کیا، جو امریکی مصنوعی ذہانت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ کے لئے خسارہ صرف اسٹاک کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے نہیں  ہے بلکہ یہ جیو پولیٹیکل صدمہ بھی ہے۔ ڈیپ سیک کے عروج نے نہ صرف وال اسٹریٹ بلکہ واشنگٹن کو بھی غیر مستحکم کردیا ہے، جہاں نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے امریکی ٹیک انڈسٹری کے لئے ویک اپ کال قرار دیا ہے چونکہ ڈیپ سیک نے ثابت کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی قیادت اب ہارڈ وئر کی برتری پر منحصر نہیں اور یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسی سازوں کو امریکہ کی تکنیکی بالادستی کے ختم ہونے کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ اس کے جواب میں ٹرمپ انتظامیہ مصنوعی ذہانت سے متعلق ٹیکنالوجی پر سخت برآمدی کنٹرول پر غور کر رہی ہے جس کا مقصد امریکی جدت کو غیر ملکی مسابقت سے بچانا ہے۔اوپن اے آئی اور ڈیپ سیک کے درمیان لڑائی کارپوریٹ جنگ اور برتری ہے لیکن مصنوعی ذہانت کی حکمرانی اور کنٹرول کے مستقبل سے متعلق نظریاتی جدوجہد بھی ہے۔ اگر مصنوعی ذہانت کو کم روایتی اخراجات سے تیار کیا جا سکتا ہے، تو دنیا مٹھی بھر مغربی کمپنیوں کی اجارہ داری سے ہٹ کر زیادہ متنوع اور مسابقتی مصنوعی ذہانت کی طرف منتقل ہوسکتی ہے۔پاکستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لئے یہ تبدیلی مواقع اور چیلنجز دونوں ہی پیش کرتی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے متعلق ٹیکنالوجی کی برآمدات پر بڑھتی ہوئی پابندیوں سے پاکستانی اسٹارٹ اپس کے لئے جدید آلات تک رسائی مشکل ہو سکتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ہواوے پر امریکی پابندیوں نے فائیو جی کے پھیلا کو محدود کر دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈیپ سیک کے سستے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز پاکستان جیسے ممالک کے لئے ایک نیا موقع فراہم کر سکتے ہیں جہاں زیادہ لاگت اور بنیادی ڈھانچے کی حدود نے مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی رفتار سست کر دی ہے۔ اگر مصنوعی ذہانت کی ترقی زیادہ قابل رسائی ہو جاتی ہے تو پاکستانی کاروباری ادارے، یونیورسٹیاں اور ڈویلپرز کم لاگت پر طاقتور مصنوعی ذہانت کے ٹولز کو ضم کر سکتے ہیں، جس سے فنانس، ہیلتھ کیئر، تعلیم اور ای کامرس میں جدت کو فروغ ملے گا۔ ایک بات واضح ہے کہ اے آئی اب صرف تکنیکی آلہ نہیں بلکہ یہ عالمی معیشت اور طاقت کی جدوجہد میں اسٹریٹجک ہتھیار بن چکا ہے۔)بشکریہ دی نیوز۔ تحریر خورشید شیرانی۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام(

 آج کیا گیا درست انتخاب اس بات کا تعین کرے گا کہ مصنوعی ذہانت عالمی ترقی کے لئے طاقت ہے یا جغرافیائی سیاسی کنٹرول کے لئے میدان جنگ ہے۔ اب جبکہ دنیا ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے، حکومتوں اور کارپوریشنوں کے فیصلے آنے والی دہائیوں میں مصنوعی ذہانت کے کردار کو تشکیل دیں گے اور اس کے ساتھ، عالمی طاقت کا توازن بھی قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔