پیر ٹو پیر(پی 2 پی)سے مراد غیر مرکزی نظام ہے جہاں افراد بینکوں یا مالیاتی اداروں جیسے ثالثوں پر انحصار کئے بغیر براہء راست اثاثوں، خدمات یا معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ پی 2 پی سسٹم افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ براہء راست بات چیت کرنے کے لئے بااختیار بناتا ہے۔ پی 2 پی سسٹم کے تین کلیدی فوائد میں صارف کے کنٹرول میں اضافہ، لین دین کے اخراجات میں کمی اور مالی شمولیت میں اضافہ شامل ہیں۔ بینکنگ کا نظام مرکزیت پر مبنی ہیں۔ بینکوں کے درمیانی لین دین ہوتا ہے۔ بینک قرض دہندگان کے درمیان فنڈز کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ بینکوں کی درجہ بندی ان کی فراہم کردہ سہولیات کے ڈھانچے سے ہوتی ہے۔ بینکوں میں فیصلہ سازی مرکوز ہوتی ہے۔ بینک قرض مختص کرتے ہیں۔ بینک پیسے کی نقل و حرکت کو کنٹرول کرتے ہیں۔ بینکوں میں ٹرانزیکشن فیس، پروسیسنگ فیس اور دیکھ بھال کی فیس زیادہ ہوتی ہے اور بینک غیر جمہوری بھی ہوتے ہیں۔ پی 2 پی ثالثوں کو ختم کرتا ہے۔ پی 2 پی افراد کے مابین مالی لین دین پر کنٹرول دیتا ہے۔ پی 2 پی صارفین کو خودمختاری کی اجازت دیتا ہے۔ پی 2 پی میں انتہائی کم ٹرانزیکشن فیس ہوتی ہے، لین دین کی پروسیسنگ فیس نہیں ہوتی اور دیکھ بھال کی فیس بھی نہیں لی جاتی۔ پی 2 پی ان افراد کے لئے مالی خدمات تک رسائی فراہم کرسکتا ہے جو روایتی بینکاری نظام سے باہر ہوسکتے ہیں۔ پی ٹو پی کریڈٹ، سرمایہ کاری کے مواقع اور ترسیلات ِزر تک رسائی فراہم کرسکتا ہے۔ پی 2 پی نامی مالیاتی پلیٹ فارم خدمات تک رسائی کو بینکوں کے مقابلے زیادہ جمہوری رکھتے ہیں۔پی 2 پی ٹیکنالوجی موجودہ بینکاری کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری نہیں۔ پی 2 پی دراصل فنانس کے تانے بانے میں بنیادی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔ پی 2 پی روایتی ثالثوں جیسے بینکوں کو نظر انداز کرتا ہے جو افراد کو اپنے مالی معاملات پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بااختیار بناتا ہے۔ پی ٹو پی مرکزی اداروں کے 200 سالہ غلبے کو سنجیدگی سے چیلنج کر رہا ہے۔ پی ٹو پی ڈی سینٹرلائزڈ انقلاب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم کس طرح قرض لیتے ہیں، قرض دیتے ہیں، سرمایہ کاری کرتے ہیں اور مالی لین دین کرتے ہیں۔ پی ٹو پی مالیاتی شمولیت اور بااختیاری کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے۔ تصور کریں کہ 24کروڑ پاکستانیوں میں سے 18کروڑ کے پاس بینک اکاؤنٹ نہیں ہیں۔ جی ہاں، پی ٹو پی پلیٹ فارمز 18 کروڑ بینکنگ سے محروم پاکستانیوں کے لئے لائف لائن فراہم کرتے ہیں۔ تصور کریں کہ پاکستانی بینکوں نے گزشتہ سال572 ارب روپے کا منافع کمایا۔ جی ہاں، بینک پی2 پی کو اپنے منافع اور مالیاتی منظر نامے میں ان کے غلبے کے لئے ایک ممکنہ خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بینکوں کو مارکیٹ شیئر میں کمی، بنیادی کاروباری لائنوں میں خلل، ڈیپازٹس کے لئے مسابقت، قرض دینے اور قیمتوں کے دبا کے لئے مسابقت کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔پاکستان کی سول سوسائٹی، جسے متحرک ٹیک سیکٹر اور ڈی سینٹرلائزڈ ٹیکنالوجیز کو جدید تفہیم سے تقویت ملی ہے۔ سیکیورٹیز اینڈ ایکس چینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)کا فرسودہ ریگولیٹری فریم ورک پر عمل پیرا ہیں۔ جدت کو فروغ دینے اور پی ٹو پی ٹیکنالوجیز کی تبدیلی کے امکانات سے فائدہ اٹھانے کے بجائے حکومت ریگولیٹری ابہام کے ماحول کو برقرار رکھنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتی ہے۔ریڈ الرٹ: پی ٹو پی انقلاب دستک دے رہا ہے۔ پاکستان ایک متحرک ڈیجیٹل منظر نامے اور ٹیکنالوجی سے واقف ہے لیکن پاکستان کا ریگولیٹری فریم ورک ماضی سے جڑا ہوا ہے۔ ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک، جو بظاہر قائم مالیاتی اداروں کے مفادات کے تحفظ کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں، جدت کو دبانے اور بینکوں سے محروم لاکھوں پاکستانیوں کو غیر مرکزی فنانس کی تبدیلی کی صلاحیت تک رسائی نہیں دینا چاہتے۔ فیصلہ کن کاروائی کا وقت آگیا ہے۔ پاکستان پی ٹو پی انقلاب اپنانا ہوگا، اپنے ریگولیٹری فریم ورک کو جدید بنانا ہوگا اور ایک ایسے ماحول کو فروغ دینا ہوگا جہاں جدت پھل پھول سکے۔ فنانس کا مستقبل ان لوگوں کا ہے جو غیر مرکزی مستقبل کو اپناتے ہیں اور اگر پاکستان خود کو ڈھالنے میں ناکام رہا تو اسے پیچھے رہ جانے کا خطرہ ہے۔)بشکریہ دی نیوز۔ تحریر‘ ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام(
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام