خواتین کا نامکمل انقلاب

مجموعی آبادی کے نمایاں تناسب کے باوجود سیاسی مباحثے کی تشکیل میں خواتین کی سیاسی شرکت بہت کم رہی ہے‘ عالمی سطح پرخواتین کے مسائل حل کرنے کے لئے صنفی متوازن معاشروں کی تشکیل پر توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ رجحان پاکستان میں بھی پایا جاتا ہے اگرچہ 2008ء کی پارلیمنٹ نے پاکستان کی تاریخ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی سب سے زیادہ نمائندگی تھی لیکن سیاسی جماعتوں کی پالیسیوں اور ایجنڈوں کے تعین میں خواتین کی شرکت کم رہی ہے۔ سیاست میں صنفی مساوات کا وعدہ بڑی حد تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔پاکستان میں آئین خواتین کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ حالیہ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کی 241.49 ملین آبادی میں خواتین کی تعداد 48.51 فیصد ہے لیکن ان کی سیاسی نمائندگی ہر محاذ پر محدود ہے۔ آئین کے آرٹیکل پچیس اور چونتیس کے تحت صنفی مساوات ہونی چاہئے لیکن اس کے باوجود خواتین قومی اسمبلی میں حسب آئین نمائندگی نہیں رکھتیں۔ جنرل نشستوں پر انتخابات میں خواتین نے کل نشستوں کا 3.5 فیصد نشستیں حاصل کیں جبکہ 336 رکنی قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں سمیت خواتین کی کل نمائندگی صرف 15.5 فیصد ہے۔ بلغاریہ سے آئرلینڈ جیسی کئی ایک جمہوریتوں میں 80 فیصد سے زیادہ پارلیمانی نشستوں پر مرد قانون سازوں کا غلبہ ہے۔ صرف یورپی یونین میں 85 فیصد میئر مرد ہیں۔ اس عدم توازن کو دور کرنے کے لئے قانون سازی کی کوششیں اہم لیکن ناکافی رہی ہیں۔ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء نے پاکستان میں خواتین کی سیاسی شرکت کو بڑھانے کی کوشش کی۔ اس حکم نامے میں سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں خواتین کی نمائندگی کو یقینی بنائیں۔ 2013ء میں آرٹیکل 8 اے میں اہم ترمیم کے ساتھ سیاسی جماعتوں کو عام نشستوں کے انتخابات کے لئے کم از کم 5فیصد خواتین امیدواروں کا انتخاب کرنے کا پابند کیا گیا۔ پی پی او 2002ء میں ایک اور ترمیم آرٹیکل 110 میں وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر تمام منتخب اور غیر منتخب پارٹی جنرل کونسلوں اور متعلقہ کمیٹیوں میں خواتین کے لئے 33 فیصد کوٹہ تجویز کیا گیا تھا تاہم اس بل کی منظوری نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود، پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کردہ قانون سازی کے فریم ورک کو خواتین پارلیمنٹیرینز کے محدود اثر و رسوخ کی وجہ سے اپنے مطلوبہ اثرات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے‘ جن میں سے زیادہ تر مخصوص نشستوں پر پارلیمنٹ تک پہنچ چکی ہیں اگرچہ پارٹیاں برائے نام اعداد و شمار جاری کرتی ہیں اور وہ اکثر خواتین کو بامعنی قیادت کے عہدوں سے خارج کرکے قانون کی روح کو نظر انداز کر رہی ہیں۔الیکشن ایکٹ 2017ء کے تحت سیاسی جماعتوں کو عام انتخابات میں اپنے ٹکٹوں کا پانچ فیصد خواتین امیدواروں کو دینا چاہئے۔ مذکورہ ایکٹ میں ایک اہم شق یہ بھی متعارف کرائی گئی کہ اگر کسی حلقے میں خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کی شرح دس فیصد سے کم ہوئی تو وہاں انتخابی عمل کالعدم قرار دیا جائے گا لیکن خواتین کے حقوق کا سیاسی و انتخابی سیاست میں تحفظ کرنے کے باوجود بھی بات بن نہیں رہی اور خواتین کو کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ انتخابی عہدیداروں کے پاس اکثر وسائل کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ شہری مراکز سے دور علاقوں میں خواتین کے ٹرن آؤٹ کی مؤثر نگرانی نہیں کر سکتے۔ قدامت پسند علاقوں میں ثقافتی رکاوٹیں سیاسی جماعتوں کے درمیان غیر سرکاری معاہدوں کا باعث بنتی ہیں تاکہ خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے۔پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر کی حقیقت پیش رفت اور مستقل چیلنجز کا مجموعہ ہے۔ مسلم لیگ (نواز) اپنی قدامت پسند جڑوں سے ابھری ہے اور مریم نواز جیسی شخصیات پنجاب کی وزیر اعلیٰ کے عہدے تک پہنچ چکی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے قیام سے ہی خواتین کے حق میں اپنا جارحانہ مؤقف برقرار رکھا ہے اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور پہلی خاتون وزیر خارجہ پیپلزپارٹی ہی کے دور میں سامنے آئیں۔ تحریک انصاف اپنے منفرد نکتہئ نظر کے باوجود صنفی نمائندگی کے حوالے سے معیار  پر پوری نہیں اُترتی اور اس کی 33 رکنی کور کمیٹی میں صرف ایک خاتون رکن شامل کی گئی ہے۔ مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے موجودہ سیاسی نظام میں جامع تبدیلی کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبداللہ خالد۔ قاسم شاہ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 سیاسی جماعتوں کو اندر سے تبدیلی لانی ہوگی اور ثقافتی تبدیلی کو جامع تعلیم اور میڈیا مہمات کے ذریعے فروغ دیا جانا چاہئے۔ خواتین رہنماؤں کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو چیلنج کیا جائے جبکہ خواتین کے سیاسی حقوق کے بارے میں برادریوں کو تعلیم و شعور دینے کے لئے معاشرے کی نچلی سطح سے اصلاحات کا عمل شروع اور نافذ کیا جانا چاہئے۔ علامتی اقدامات کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ہمیں جرأت مندانہ اور منظم تبدیلی کی ضرورت ہے جو ہمارے سیاسی اداروں کو مساوی نمائندگی اور مشترکہ طاقت کے حقیقی پلیٹ فارم میں تبدیل کر دے۔ تبھی ہم اس وعدے کو پورا کر سکتے ہیں کہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو جیسی رہنماؤں نے نہ صرف خواتین بلکہ ان جمہوری اقدار کی نمائندگی کی جن کی ہم سب دل سے قدر کرتے ہیں۔