پاکستان میں قومی اتحاد کا حصول خواب لگتا ہے۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اِس وقت ملک شدید پولرائزڈ ہے۔ سیاسی استحکام اور ترقی یقینی بنانے کے لئے اس صورتحال کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ عام انتخابات کی بات کی جائے تو اس موجودہ تقسیم کو مزید وسیع کیا ہے، جس کی بڑی وجہ انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کے الزامات اور مبینہ سیاسی انجینئرنگ ہے‘ ان الزامات کی وجہ سے رائے دہندگان میں بڑے پیمانے پر مایوسی پیدا ہوئی ہے اور سیاسی دھڑوں میں مزید پولرائزیشن دیکھی جا رہی ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے متعارف کرائی گئی آئینی اصلاحات سے متعلق بحث بھی سیاسی تناؤ کو ہوا دے رہی ہے اور مختلف سیاسی جماعتیں ان تبدیلیوں کی اپنے بیانیے کے مطابق تشریح کر رہی ہیں۔ ان اصلاحات کے اثرات نہ صرف عوامی گفتگو میں واضح ہیں بلکہ اعلیٰ عدالتوں کی راہداریوں کے اندر بند دروازوں کے پیچھے بیان کردہ خطوط اور شکایات بھی واضح ہیں۔ تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی جانب سے اڈیالہ جیل سے لکھے گئے خطوط کے لب و لہجے سے سیاسی ماحول مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ مخالفین کا استدلال ہے کہ ان کی قانونی لڑائیاں احتساب اور قانون کی حکمرانی کی پاسداری کا نتیجہ ہیں۔ اس پرجوش سیاسی ماحول کے درمیان مصالحت اور قومی اتحاد کو فروغ دینے کے مقصد سے عظیم الشان مکالمہ آگے بڑھانا ضروری ہو گیا ہے اور یہ مکالمہ محض آپشن نہیں رہا بلکہ بڑھتی ہوئی تقسیم ختم کرنے اور ملک کے سیاسی تانے بانے کو ٹھیک کرنے کے لئے بھی ضروری ہے۔ قرضوں اور واجبات پر انحصار کو کم کرنے کے لئے معیشت کا چارٹر انتہائی اہم ہے جبکہ ایک جامع جمہوری سیاسی نظام معاشرتی مسائل کا حل اور حقیقی استحکام کے حصول کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان کے لئے چیلنجز میں عبوری افغان حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویئے بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے افغان سرحد پر صورتحال غیر یقینی کا شکار ہے۔ ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیاں سلامتی کے لئے بڑا چیلنج ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے۔ پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی کے حملوں کے دوبارہ ابھرنے سے نہ صرف داخلی سلامتی کو خطرہ ہے بلکہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سفارتی تعلقات بھی پیچیدہ ہو گئے ہیں۔ ان جغرافیائی سیاسی چیلنجوں کے لئے مربوط اور مؤثر خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کی تشکیل ضروری ہے جس کے لئے متحدہ قومی محاذ ہونا چاہئے۔آج کی معاشی سلامتی ہی قومی سلامتی ہے جبکہ بدقسمتی سے پاکستان کی معاشی سلامتی ہمیشہ کمزور رہی ہے۔ ملک اب بھی مقروض ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی نگرانی میں معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے موجودہ توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے ساتھ ساتھ سخت شرائط اور پیچیدہ پالیسی مضمرات کی وجہ سے معاشی استحکام غیر یقینی ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے اور سبسڈی میں کٹوتی سمیت یہ شرائط عام پاکستانی کے لئے ضروریات زندگی کی لاگت میں اضافہ کر رہی ہیں جس سے عوام میں مایوسی اور بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور پاکستانی روپے کی قدر میں کمی سے قوت خرید میں کمی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ معاشی چیلنج صرف مالی مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ سماجی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کے لئے خطرات ہیں۔ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام بہت ضروری ہے۔ یہ صرف ایک ایسے نظام کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے جو عوامی مینڈیٹ کا احترام کرے، اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام کی مرضی حکمرانی کی رہنمائی کرے۔ سلامتی اور استحکام کے اہم مسائل کو حل کرنے کے لئے عوام کے اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔پاکستان اس وقت غیر معمولی مشکل مرحلے سے گزر رہا ہے جس میں وسائل کی شدید قلت، زیادہ آبادی، وسیع پیمانے پر غربت، قرضوں کا بوجھ، کم بچت، غیر مسابقتی صنعتیں کم استعمال شدہ افرادی قوت، محدود تکنیکی ترقی اور سیاسی افراتفری جیسے محرکات شامل ہیں۔ ملک کا سیاسی منظر نامہ بدعنوانی، اقربا پروری اور اقتدار کی کشمکش کے الزامات سے بھرا ہوا ہے، جس نے معاشی بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی سلامتی میں خلل ڈالنے والی بنیادی فالٹ لائن ہے۔ یہ تمام اسٹیک ہولڈرز، خاص طور پر حکومت سے فوری توجہ کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ موجودہ لائحہ عمل کو درست کیا جاسکے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسن بیگ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
ملک کے ادارہ جاتی فریم ورک میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی اہم کردار ہے۔ معاشی سلامتی کے لئے سیاسی استحکام شرط ہے جیسا کہ آئی ایم ایف نے پائیدار ترقی پر زور دیا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے وسیع تر قومی مفاد کے لئے ذاتی انا کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔ آئین کی بالادستی کو برقرار رکھنے پر مرکوز ایک عظیم الشان قومی مکالمہ اہم قومی مسائل کے حل کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اس مکالمے میں تمام سیاسی جماعتوں، ریاستی اداروں، سول سوسائٹی اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جانا چاہئے تاکہ حقیقی معنوں میں جامع عمل کو یقینی بنایا جا سکے۔