تحفظ ماحول اور محصولات

تحفظ ماحول کی کوششوں میں ”گرین ٹیکس“ سب سے اہم ہے۔ جامع مواصلاتی مہمات شہریوں کو مؤثر طریقے سے تعلیم دے سکتی ہیں کہ یہ اقدامات ماحولیاتی تحفظ اور عوامی صحت کے لئے کس قدر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پالیسیوں کی تشکیل اور نفاذ میں کمیونٹیز اور اسٹیک ہولڈرز کو مشغول کرنے سے اِن کوششوں کو فروغ ملے گا اور تعاون میں اضافہ ہوگا اگرچہ فریم ورک ٹیکس اور جرمانے کو ترجیح دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ طرز عمل میں تبدیلی کو فروغ دینے کے لئے مثبت ترغیبات کی اہمیت بھی تسلیم کرتا ہے۔ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے ٹیکس میں کمی اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز کے لئے سبسڈی جیسے اقدامات کے طور پر کام کرتی ہے جو فریم ورک کے مقاصد کو تقویت دے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ کاروبار جو شمسی توانائی کی تنصیبات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں یا توانائی کی بچت کے عمل کو اپناتے ہیں وہ کم ٹیکس واجبات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح، وہ افراد جو الیکٹرک گاڑیاں (EVs) خریدتے ہیں یا ری سائیکلنگ پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں انہیں مالی انعامات یا چھوٹ مل سکتی ہے۔ اس طرح کی ترغیبات نہ صرف پائیدار معیشت کی طرف منتقلی میں سہولت فراہم کریں گی بلکہ ماحول دوست جدت کو فروغ دینے کے لئے حکومت کے عزم کی بھی نشاندہی کریں گی۔ سویڈن اور جرمنی جیسے ممالک میں گرین ٹیکس فریم ورک کا کامیاب نفاذ پاکستان کے لئے قابل قدر بصیرت فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سویڈن نے 1991ء میں کاربن ٹیکس متعارف کرایا، جسے گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج کم کرنے کے لئے سب سے مؤثر میکانزم سمجھا جاتا ہے۔ کاربن کے اخراج پر قیمت لگا کر سویڈش حکومت نے صنعتوں اور صارفین دونوں کو صاف توانائی کے ذرائع اور ماحول دوست ٹیکنالوجیز کی طرف منتقل ہونے کی ترغیب دی نتیجہ یہ نکلا کہ سویڈن نے وقت کے ساتھ فوسل ایندھن پر اپنا انحصار نمایاں طور پر کم کردیا جبکہ بیک وقت مضبوط معاشی ترقی بھی کی۔گرین ٹیکس کے بارے میں جرمنی کے نقطہ نظر نے بھی توجہ حاصل کی ہے۔ 1990ء کی دہائی کے اواخر میں شروع ہونے والی ملک کے ماحولیاتی ٹیکس اصلاحات میں فوسل ایندھن پر ٹیکسوں میں بتدریج اضافے کے ساتھ لیبر ٹیکسوں میں کمی کی گئی۔ اس تبدیلی نے نہ صرف توانائی کے شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنایا بلکہ اس میں سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ افزائی کی گئی اُور اِس سے قابل تجدید توانائی ذرائع اپنانے کو وقت کے ساتھ فروغ ملا‘ جس سے سبز ٹیکنالوجیز میں جدت کو فروغ ملا۔ قابل تجدید توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں جرمنی نے بھی غیرمعمولی سرمایہ کاری کی۔ جرمنی میں ٹیکس مراعات کی مدد سے، ملک کو صاف توانائی کے شعبے میں عالمی رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔ سویڈن اور جرمنی دونوں نے گرین ٹیکس اقدامات کئے اُور اِن میں کامیابی عوامی شمولیت اور شفاف پالیسی کے نفاذ کی اہمیت کی وضاحت کی ہے۔ عوامی آگاہی کی مہمات اور اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت نے ان اقدامات کے لئے حمایت حاصل کرنے میں یکساں اہم کردار ادا کیا۔ مزید برآں‘ اس طرح کے ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ماحول دوست پائیدار ترقیاتی منصوبوں بشمول عوامی نقل و حمل اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں میں دوبارہ لگایا گیا اور اِس سرمایہ کاری سے ماحولیاتی اور معاشی دونوں فوائد میں اضافہ حاصل ہوا۔پاکستان کو بھی اِسی قسم کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے جس سے گرین ٹیکسیشن فریم ورک کی افادیت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اِس سلسلے میں دیگر ممالک کی مثالوں سے اہم اسباق میں واضح اور پرعزم اہداف کا تعین‘ محصولات کی تقسیم میں شفافیت اور بدلتے ہوئے ماحولیاتی چیلنجوں کے مطابق ڈھلنے کو برقرار رکھنا شامل ہے۔ بین الاقوامی بہترین طریقوں سے فائدہ اٹھا تے ہوئے پاکستان اہم ماحولیاتی اور معاشی ترجیحات کو پورا کرتے ہوئے پائیدار مستقبل کی طرف اپنی منتقلی کے عمل کو تیز کر سکتا ہے۔ گرین ٹیکسیشن فریم ورک پاکستان کی پائیداری کے حصول میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ مالیاتی پالیسیوں میں ماحولیاتی معاملات کو ضم کرکے، حکومت معاشی پائیداریکو فروغ دیتے ہوئے آب و ہوا کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے ایک فعال نکتہئ نظر اپنا سکتی ہے۔ بہرحال اُور بہرصورت اِس اقدام کی کامیابی حکمت عملی کے مؤثر نفاذ، عوامی شمولیت اور بدلتے ہوئے آب و ہوا سے جڑے حقائق کی مطابقت پر منحصر ہے۔ ٹیکسوں، ترغیبات اور اِن کے نفاذ کے مناسب امتزاج کے ساتھ، پاکستان پائیدار ترقی میں رہنما کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنے والے دیگر ممالک کے لئے ایک مثال بن سکتا ہے۔ گرین ٹیکسیشن فریم ورک ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور آنے والی نسلوں کے لئے پائیدار مستقبل محفوظ بنانے کی عالمی کوششوں کا تسلسل ثابت ہو سکتا ہے جس کے لئے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے سرسبز پاکستان کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حنا آئرا۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)