پیرس میں منعقدہ حالیہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) ایکشن سمٹ نے ایک بار پھر مصنوعی ذہانت سے متعلق عالمی ترجیحات کو اجاگر کیا ہے۔ فرانس اور بھارت کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والے مذکورہ سربراہی اجلاس میں ٹیکنالوجی کمیونٹی نے جوش و خروش سے حصہ لیا۔ سمٹ کے انعقاد کا بنیادی مقصد مصنوعی ذہانت تک رسائی میں اضافہ کرنا تھا جبکہ اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال شفاف، محفوظ، محفوظ اور قابل اعتماد رہے۔ اس کے علاؤہ مصنوعی ذہانت کو فروغ دے کر عالمی ڈیجیٹل تقسیم ختم کرنا اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو بااختیار بنانا بھی اِس کانفرنس کے اہم مقاصد میں شامل تھا۔ سچ بات یہ ہے کہ یہ سربراہی اجلاس ملا جلا قرہا اور اِس کے مقاصد یا اہداف حاصل نہیں ہو سکے کیونکہ برطانیہ اور امریکہ نے مجوزہ سربراہی اجلاس کے معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اِس پیش رفت مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کے مستقبل پر قابل ذکر مضمرات اور سوالات اُٹھائے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اپنی برتری کی حفاظت کے لئے فعال طور پر وکالت کی درحقیقت، برطانیہ نے 2023ء میں پہلی گلوبل اے آئی سمٹ کی میزبانی کی تھی۔ حالیہ واقعہ قومی اور کثیر الجہتی وعدوں کے ابھرتے ہوئے تنازعات اور ترجیحات کی ازسرنو تشکیل کی عکاسی کرتا ہے اگرچہ کسی حد تک کامیابی بھی ملی جیسا کہ مختلف اہداف مصنوعی ذہانت کے حوالے سے قواعد و ضوابط کو دھندلا کئے ہوئے ہیں لیکن وہ تکنیکی غلبے پر جغرافیائی سیاسی جدوجہد کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ ایک زمانے میں امریکہ اور مغربی ممالک کا مصنوعی ذہانت پر غلبہ تھا تاہم نئے ممالک کی آمد کے ساتھ جدید ترین ٹیکنالوجیز کی اجارہ داری میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، جس میں چین سب سے اہم کھلاڑی بن کر ابھرا ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والے چین کے مصنوعی ذہانت کے اقدامات نے یقینی طور پر اس کے مغربی ہم منصبوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سمٹ کا وقت بھی ڈیپ سیک کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا۔ چینی اسٹارٹ اپ اپنے آغاز کے بعد سے ہی سرخیوں میں رہا ہے۔ امریکی ماڈلز کے مقابلے میں ڈیپ سیک ماڈل کی حیرت انگیز استدلال کی صلاحیت اور نسبتا کم لاگت نے بلاشبہ پوری صنعت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس پیش رفت کی وجہ سے مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں امریکی ادارے این ویڈا نے تقریباً 600 ارب ڈالر کھو دیئے۔ اس کے بعد تائیوان، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا میں ڈیپ سیک پر پابندی عائد کر دی گئی یہ پابندی سرکاری شعبے کے ملازمین کے لئے ہے۔ توقع ہے کہ امریکہ سمیت دیگر ممالک بھی بڑھتے ہوئے سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایسی ہی پابندی عائد کریں گے کیونکہ ’ڈیپ سیک‘ کا مقابلہ کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔تکنیکی میدان میں چین مصنوعی ذہانت سے چلنے والی صنعتوں میں مغرب ممالک کو چیلنج کر رہا ہے، جو جدید ٹیکنالوجیز استعمال کر رہی ہیں۔ اے آئی ایکشن سمٹ میں ہونے والی پیش رفت اس بات کی عکاس ہے کہ ٹیکنالوجی ہر سال پہلے سے زیادہ عالمی توجہ حاصل کر رہی ہے۔ تکنیکی دوڑ ممکنہ طور پر مستقبل میں مزید ریاستوں کے مصنوعی ذہانت کے انضمام کی طرف بڑھنے کے ساتھ تیز ہوگی لہٰذا مستقبل قریب میں مصنوعی ذہانت کی عالمی گورننس منقسم رہنے کا امکان ہے۔ عالمی مصنوعی ذہانت کا منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے جس کے اثرات مستقبل میں گہرے ہونے کا امکان ہے۔ جاری پیش رفت سے پتہ چلتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی حکمرانی صرف ایک تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ اس کا دائرہ جغرافیائی سیاست، عالمی معیشت اور معاشرے تک پھیلا ہوا ہے۔ ٹیکنالوجی کی عالمی گورننس اس بات پر منحصر رہے گی کہ ممالک قومی مفادات اور عالمی تعاون کو کس طرح متوازن کرتے ہیں۔ آج کئے گئے انتخاب آنے والی نسلوں کو نمایاں طور پر متاثر کریں گے۔ اس طرح کی پیشرفتوں کے درمیان، پاکستان کو فعال طور پر جاری رجحانات کی پیروی کرنے، بین الاقوامی برادری کے ساتھ تعاون و اشتراک عمل اور تکنیکی میدان میں اپنا کردار طے کرنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر شاذہ عارف۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام