نادرا ای سہولت کے ذریعے بینکوں میں رقوم جمع کروانے کی سہولت متعارف

 نادرا نے ای سہولت کے ذریعے بینکوں میں رقوم جمع کروانے کی سہولت متعارف کروادی جس کے ذریعے ملک کے تمام بینکوں میں شہری  رقوم جمع کرواسکتے ہیں۔

 نادرا ٹیکنالوجیز لمیٹڈ اور ون لنک کے درمیان اس سلسلے میں معاہدے پر دستخط بھی ہوگئے ہیں جس کے بعد ملک بھر کے 50 سے زائد بینکوں کے اکائونٹس میں رقم جمع کروائی جاسکتی ہے۔

معاہدے کی تقریب میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ اور چیئرمین نادرا نے شرکت کی، جس کے تحت ملک بھر میں پھیلے ای سہولت کے 9 ہزار سے زائد فرنچائز پر یہ سہولت دستیاب ہوگی،رقم جمع کروانے والے افراد کی بائیو میٹرک تصدیق کی جائے گی۔

نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے بینکوں اور ٹیلی کام آپریٹرز میں شہریوں کو بائیومیٹرک تصدیق میں ناکامیوں پر عوامی تشویش کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ بینکنگ اور ٹیلی کام انڈسٹری کو ان کی ریگولیٹری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تصدیقی خدمات فراہم کی جارہی ہیں، اسٹیٹ بینک کی جانب سے تمام بینکوں کو جاری کردہ ہدایات کی روشنی میں مالیاتی اداروں کے پاس نادرا کے ویریسیس سسٹم کے ذریعے صارفین کی تصدیق کا آپشن موجود ہے جو ان کے پاس پہلے سے دستیاب ہے، یہ نظام محفوظ شناخت کی تصدیق کو یقینی بناتا ہے، فنگر پرنٹ کی تصدیق پر انحصار کو کم کرتا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق ویریسیس کو ایک محفوظ رابطے کے لنک کے ذریعے فراہم کیا جارہا ہے اور زیادہ تر منظم اور سرکاری اداروں کو فراہم کیا جارہا ہے، قومی شناختی کارڈ برائے اوورسیز  اور پاکستان اوریجن کارڈ (پی او سی)  نمبروں کی تصدیق ویریسیز کے ذریعے کی جاسکتی ہے، یہ اسٹیٹ بینک اور پی ٹی اے پر منحصر ہے کہ وہ بالترتیب بینکوں اور موبائل فون کمپنیوں کو پابند کریں کہ وہ افراد کی شناخت کی تصدیق کے لیے ویریسیز کا استعمال کریں۔

 سمز اور دیگر ٹیلی کام سروسز کے اجراء کے لیے پی ٹی اے نے سیلولر موبائل آپریٹرز کے ساتھ مل کر نادرا کی مدد سے کسٹمر سروسز سینٹرز اور منتخب فرنچائزز میں ایسے صارفین کی سہولت کے لیے پہلے ہی ایک طریقہ کار وضع کر رکھا ہے۔ 

نادرا نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پی ٹی اے کے وضع کردہ طریقہ کار پر عمل کریں اور اگر انہیں اس حوالے سے کوئی شکایت ہے تو وہ اس سے اپنے ٹیلی کام آپریٹر اور پی ٹی اے کو آگاہ کرسکتے ہیں،نادرا اسٹیٹ بینک اور پی ٹی اے کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ فنگر پرنٹ کی تصدیق نہ ہونے کی صورت میں چہرے کی شناخت کو ایک متبادل تصدیقی طریقہ کار کے طور پر متعارف کرایا جا سکے۔