پاکستان اپنی برآمدات کو بڑھانے کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ مسئلہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہے کہ ہمارے پاس اعلی ٹیکنالوجی (اعلی ویلیو ایڈڈ) مواد جیسا کہ انجینئرنگ سامان، دواسازی، الیکٹرانکس، آٹوموبائل، کمپیوٹر وغیرہ کی تیاری اور برآمد کرنے کی صلاحیت موجود نہیں۔ ہماری برآمدات کا تقریبا 60فیصد کم قیمت کے ٹیکسٹائل ہیں۔ ہائی ٹیک مواد کی تیاری اور برآمد کی صلاحیت کو فروغ دینے کے لئے‘ ہمیں سرکاری اور نجی شعبے کے آر اینڈ ڈی (تحقیق و ترقی) میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ نئی اُور نسبتاً جدید ٹیکنالوجیز پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آر اینڈ ڈی میں خام پیداواری آمدن کا 2فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والے ممالک تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں جبکہ پاکستان جیسے ممالک اِس ترقی میں پیچھے ہیں۔ آج ہمارے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں خستہ حالی کا شکار ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ علمی معیشت کی طرف منتقلی خواب ہی رہ گیا ہے جبکہ ہم اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بھی قرضے لے رہے ہیں۔ سائنس اور انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز ترقی تیزی سے کاروباروں کے منظر نامے اور دنیا بھر میں برآمدات کے پورٹ فولیو کو تبدیل کر رہی ہے‘ اس کی ایک مثال چیٹ جی پی ٹی کی ہے جس نے چند سال سے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا ہے اور جس کے لئے ایلون مسک نے حال ہی میں 97.5ارب ڈالر کی خطیر رقم کی پیشکش کی تھی۔ اس سال کے اوائل میں جب ایک چینی کمپنی ڈیپ سیک سامنے آئی جو لاگت کے ایک چھوٹے سے حصے پر چیٹ جی پی ٹی سے بہتر ہے۔ رواں سال جنوری کے اواخر میں چینی آن لائن ریٹیلر کمپنی علی بابا نے کیوین 2.5 میکس لانچ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈیپ سیک وی تھری سے بھی بہتر ہے۔ حیاتیاتی علوم کی طرف رجوع کرتے ہوئے، جینومکس میں سب سے اہم کامیابیوں میں سے ایک ڈی این اے کو ترتیب دینے کے لئے درکار لاگت اور وقت میں ڈرامائی کمی ہے۔ جب 2003ء میں ہیومن جینوم پروجیکٹ مکمل ہوا تو اس میں ایک دہائی سے زیادہ کا وقت لگا اور ایک ہی انسانی جینوم کو ترتیب دینے میں تقریباً تین ارب ڈالر لاگت آئی۔ آج، اگلی نسل کی سیکوئنسنگ (این جی ایس) ٹیکنالوجیوں کی بدولت، اسی کام کو ایک ہزار ڈالر کی لاگت سے بھی کم میں چند گھنٹوں میں پورا کیا جاسکتا ہے۔ ایک انقلابی جین ایڈیٹنگ ٹول (سی آر آئی ایس پی آر) کی ترقی جینومکس میں گیم چینجر ثابت ہوئی ہے۔ سی آر آئی ایس پی آر سائنس دانوں کو ڈی این اے میں درست تبدیلیاں کرنیکی اجازت دیتا ہے‘ جس سے جینیاتی تغیرات کی اصلاح ہوتی ہے۔ سی آر آئی ایس پی آر پہلے ہی کلینیکل ٹرائلز میں جینیاتی امراض جیسے سکل سیل انیمیا اور بیٹا تھیلیسیمیا کے علاج کیلئے استعمال کیا جارہا ہے‘ زراعت میں، سی آر آئی ایس پی آر کو بہتر پیداوار، بیماریوں کے خلاف مزاحمت اور غذائی تحفظ و زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ درست ادویات کے عروج سے جلد ہی علاج کو کسی فرد کے جینیاتی میک اپ کے مطابق بنانے کی اجازت ملے گی۔ مثال کے طور پر، پریسیشن اونکولوجی نے کینسر کے علاج میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ مریض کے ٹیومر کے جینیاتی پروفائل کا تجزیہ کرکے، معالجین صحت مند ٹشو کو بچاتے ہوئے خاص طور پر کینسر کے خلیات پر حملہ کرنیوالے مخصوص علاج تجویز کرسکتے ہیں۔ امیونوتھراپیز نے پہلے سے ناقابل علاج کینسر کے علاج میں قابل ذکر کامیابی دکھائی ہے۔ یہ تھراپیز کینسر سے لڑنے کیلئے جسم کے مدافعتی نظام کو استعمال کرتی ہیں، جو جدید یا میٹاسٹک بیماری کے مریضوں کو نئی امید فراہم کرتی ہیں۔مصنوعی ذہانت (اے آئی) اور مشین لرننگ تشخیص، ادویات کی دریافت اور مریضوں کی دیکھ بھال میں اضافہ کرکے طب میں انقلاب برپا کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ٹولز کو چھاتی کے سرطان، ذیابیطس ریٹینو پیتھی، اور الزائمر کی بیماری جیسی بیماریوں کی ابتدائی علامات کا پتہ لگانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، اکثر انسانی معالجین کے مقابلے میں زیادہ درستگی کے ساتھ منشیات کی دریافت میں، مصنوعی ذہانت ممکنہ منشیات کے امیدواروں کی شناخت کو تیز کر رہی ہے اور کلینیکل ٹرائل ڈیزائن کو بہتر بنا رہی ہے۔ ڈیپ مائنڈ اور انسیلیکو میڈیسن جیسی کمپنیاں پروٹین ڈھانچے کی پیش گوئی کرنے اور مالیکیولر تعاملات کی نقل کرنے کیلئے مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہی ہیں، جس سے نئے علاج تیار کرنے کے وقت اور لاگت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس طرح کی پیش رفت کے نتیجے میں ان میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی برآمدات کو بہت زیادہ فروغ مل رہا ہے۔ زراعت، جو انسانی تہذیب کی ریڑھ کی ہڈی ہے، تکنیکی جدت طرازی، ماحولیاتی چیلنجوں اور بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کو کھلانے کی ضرورت کی وجہ سے ایک انقلابی دور سے گزر رہی ہے۔ جدید کاشتکاری میں درست زراعت ایک گیم چینجر کے طور پر ابھری ہے، جس میں زرعی طریقوں کو بہتر بنانے کیلئے ڈیٹا، سینسر اور مصنوعی ذہانت کا فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ ہمارا مستقبل تاریک ہے۔ بہت دیر ہونے سے پہلے جاگنے کا وقت آ گیا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطاء الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بیرون ملک تعلیم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی اجلاس
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غیر قانونی تارکین وطن
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمایہ دارانہ نظام: حیات و نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بہتر اساتذہ برائے مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ڈیجیٹل میدان جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹرمپ اور پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کرپٹو کرنسی انقلاب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
امریکی پالیسی کا تضاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام