ماحولیاتی تباہی

امریکہ کے شہر لاس اینجلس اور پاکستان کے شہر مری میں لگنے والی حالیہ جنگلات کی آگ نے موسمیاتی تبدیلیوں، ماحولیاتی نظام کی کمزوری اور انسانی جانوں اور آمدنی کے ذرائع کے حوالے سے ہونے والے نقصانات اور خطرات کو واضح کیا ہے۔ اس طرح کی شدید آفات سے نمٹنے کے لئے عالمی تعاون کی ضرورت بھی محسوس کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے پاس موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہ کاریوں اور خطرات سے نمٹنے کے وسائل موجود نہیں ہیں۔  حالیہ برسوں میں اس طرح کی آگ نے دنیا کے مختلف حصوں کو تباہ کیا ہے۔ سال دوہزار انیس میں ایمازون کے جنگلات کو تباہ کن آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا تھا  جس سے ایک کروڑ ستر لاکھ ایکڑ سے زائد رقبہ جل گیا تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑی مقدار فضا میں خارج ہوئی تھی۔ سال دوہزار انیس کے بلیک سمر میں لگنے والی آگ نے چھیالیس ملین ایکڑ سے زیادہ رقبے کو جلا دیا، جس میں 33انسانی جانیں گئیں، تین ارب سے زیادہ جانور ہلاک ہوئے اور بے شمار بے گھر ہوگئے تھے۔ ان سانحات نے حیاتیاتی تنوع اور آب و ہوا کے
 استحکام کے لئے طویل مدتی خطرات کی نشاندہی کی ہے۔بائیس جنوری دوہزارپچیس تک لاس اینجلس میں آگ نے جنگلات جیسے اہم علاقوں کو تباہ کیا۔ پیلیساڈس آگ نے بحرالکاہل کے پالساڈس اور مالیبو کے کچھ حصوں میں چوبیس ہزار سے زیادہ ایکڑ زمین کو تباہ کر دیا۔ ایٹن فائر چودہ ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے کو عبور کرتے ہوئے التاڈینا اور پاساڈینا تک پہنچ گیا، جس نے 17افراد کی جان لے لی۔ ہرسٹ فائر نے سان فرنینڈو کے شمال میں 799ایکڑ زمین کو جلا کر راکھ کر ڈالا۔ مجموعی طور پر اِن آتشزدگیوں نے بارہ ہزار سے زائد عمارتوں کو جلا دیا، دو لاکھ سے زیادہ افراد کو بے گھر کیا اور تقریباً ڈھائی سو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا، جس نے اسے امریکی تاریخ کی سب سے مہنگی قدرتی آفت بنایا۔ پاکستان کی بات کریں تو جنوری میں مری کی پہاڑیوں میں جنگلات میں شدید آگ لگی جس کے نتیجے میں گھوڑا گلی، پی پی ون اور سملی جنگلات کا بڑا حصہ آگ کی لپیٹ میں آ گیا جہاں انچاس مختلف مقامات پر درخت، جھاڑیاں اور جنگلی حیات کی رہائش گاہیں راکھ ہو گئیں۔ انسانی اور مالی نقصانات کی تفصیلات تاحال مرتب نہیں کی گئیں لیکن یہ بڑے پیمانے پر تھیں۔ سال دوہزاربائیس میں بلوچستان کے چلغوزہ کے جنگلات میں لگنے والی آگ نے بھی بہت نقصان کیا۔ یہ دنیا کے سب سے بڑے چلغوزے کے جنگلات ہیں۔آگ کی وجہ سے جنگل کا قریب 40فیصد سے زیادہ حصہ جل گیا۔ مقامی برادریوں کے لوگ کمبل اور بالٹیوں کے ساتھ آگ سے لڑ رہے تھے کیونکہ قدرتی آفات سے نمٹنے کا کوئی منظم طریقہ کار موجود نہیں تھا جس کی وجہسے ماحولیاتی اور معاشی دونوں خزانے ضائع ہوئے۔ یہ المناک واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان تیاری اور پیسے کا پیمانہ کتنا مختلف ہے۔ جنگل کی آگ کے ساتھ ماحولیاتی مسائل حل کرنا ضروری ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے ابتدائی الرٹ سسٹم میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔
 ابتدائی مراحل میں جنگل کی آگ کا پتہ لگانے اور اس کا انتظام کرنے کے لئے سیٹلائٹ اور ڈرونز کا استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ بروقت اور فوری انخل یقینی بنانے میں بھی مدد مل سکے۔ مقامی افراد کو جنگل کی آگ سے نمٹنے کی تربیت دینے آگ کے شعلوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے لباس (یونیفارم)کی فراہمی موبائل واٹر پمپس اور دیگر ضروری سازوسامان (آلات) فراہم کرکے رضاکارانہ فائر فائٹنگ اسکواڈز تشکیل دینے چاہیئں۔ اس طریقہ کار سے آگ بجھانے کے مقامی وسائل کی کمی کو بھی دور کرنے میں مدد ملے گی۔ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے علاقائی تعاون بھی یکساں اہم ہے۔ افغانستان، ایران اور پاکستان جیسے ممالک جو ایک جیسا (یکساں)ماحولیاتی نظام رکھتے ہیں‘ کے درمیان وسائل کی تقسیم اور مشترکہ کاروائی کے لئے سرحد پار معاہدے ہونے چاہیئں۔ موسمیاتی تبدیلیاں اب ایک حقیقت ہیں اور اِسی وجہ سے انہیں قومی حکمت عملیاں وضع کرتے ہوئے خاطرخواہ ترجیح ملنی چاہئے۔ 
(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر مسعود لوہار۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)