پاکستان کی معیشت بحران کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور یہ تماشا ایک عرصہ سے دنیا دیکھ رہی ہے جس کی وجوہات میں سیاسی خلفشار اور معاشی بدانتظامی جیسے امور بھی شامل ہیں جنہوں نے ملک کو مالیاتی ایمرجنسی سے مالی ایمرجنسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ہر بار امید کے لمحات آتے ہیں جیسا کہ آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ، نئے وعدے، پرجوش ترقیاتی منصوبے لیکن وہ عدم استحکام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اِس عرصے کے دوران کاروباری اداروں نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا ہے اور سرمایہ کار بھاگ گئے ہیں جبکہ عام پاکستانی معاشی غیر یقینی کا دور ختم ہونے کے منتظر ہیں۔حالیہ چند مہینوں میں بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ اسلام آباد کے سرکاری دفاتر، کراچی کے مالیاتی اضلاع اور یہاں تک کہ دیہی علاقوں میں ہونے والی گفتگو ماضی سے مختلف محسوس ہو رہی ہے۔ پاکستان‘ معاشی غلطیوں کی تاریخ کے باوجود، بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ قوم کی تاریخ میں ایک حقیقی موڑ ہے یا اگلے طوفان سے پہلے صرف مختصر راحت ہے؟تبدیلی کے سب سے بڑے محرکات میں سے ایک سیاسی استحکام کا نادر لمحہ رہا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں حکومتیں اکثر اپنی مدت ختم ہونے سے پہلے گر جاتی ہیں، قیادت میں تسلسل چاہے وہ نامکمل ہی کیوں نہ ہو ضروری ہوتا ہے اور یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد پر بھی نمایاں اثر ڈالتا ہے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کی سیاست کو متعین کرنے والی اقتدار کی کشمکش کی جگہ اب نظم و ضبط نے لے لی ہے۔ صرف اس سے گہری جڑیں رکھنے والے معاشی مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ یہ غیر یقینی صورتحال کو دور کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاک فوج نے معاشی معاملات میں زیادہ مؤثر رویہ اختیار کیا ہے۔ آج معاشی پالیسی سازی میں پاک فوج کی شمولیت بے مثال ہے۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس سے سرمایہ کاری تیزی آئی ہے جو اِس بات کا بھی واضح اشارہ ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ معاشی استحکام اور قومی سلامتی کے درمیان تعلق کو سمجھتی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے، بیوروکریسی کے ریڈ ٹیپ کو ختم کرنے اور کاروبار کرنے کی جگہ کے طور پر پاکستان میں اعتماد بحال کرنے پر فوری زور دیا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں افراط زر (مہنگائی) کی شرح میں رفتہ رفتہ کمی آ رہی ہے جو ایک وقت میں بے قابو ہو چکی تھی۔ پاکستانی روپیہ کئی ماہ کی گراوٹ کے بعد مستحکم ہو رہا ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو کبھی انتہائی کم تھے، آئی ایم ایف کے معاہدوں کی تجدید اور ترسیلات زر میں بہتری کی وجہ سے مضبوط ہوئے ہیں۔ ابھی ایک طویل سفر طے کرنا باقی ہے لیکن ابتدائی اشارے امید افزا ہیں تاہم، سیاسی خطرہ اپنی جگہ موجود ہے جو اس نازک استحکام میں خلل ڈال سکتا ہے۔ عمران خان کا عنصر پاکستان کے سیاسی اور معاشی منظر نامے پر طویل سایہ ڈال رہا ہے۔ سال دوہزار بائیس میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کے ڈرامائی طور پر اقتدار سے الگ ہونے اور اس کے بعد حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی انتھک کوششوں نے ملک کی سیاست کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ تحریک انصاف کی پاپولسٹ بیان بازی نے سازشی نظریات کو ہوا دی ہے‘ ریاستی اداروں کو کمزور کیا ہے اور دائمی بدامنی کا ماحول پیدا کیا ہے۔پاکستان کی سرحدوں سے باہر، نقصان اس سے بھی زیادہ ہوا ہے۔ کئی ممالک میں حکومت مخالف گمراہ کن مظاہروں اور سیاسی استحصال کے بے بنیاد دعوے کر رہے ہیں۔ ان اقدامات سے بین الاقوامی ہمدردیاں حاصل کرنا تو دور کی بات ہے لیکن اس سے پاکستان کے بارے میں منفی تاثر کو تقویت ملی ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو سیاسی ناپختگی کا شکار ہے۔ مغربی پالیسی ساز اور سرمایہ کار جو پہلے ہی پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنے سے ہچکچا رہے تھے وہ اس افراتفری کو دیکھتے ہوئے مزید ہچکچاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ساکھ و استحکام کی ضرورت ہے، اِس قسم کے احتجاج ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں براہئ راست رکاوٹ ہیں۔ پاکستان ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔ ممکنہ تبدیلی کی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں لیکن یہ نازک لمحات ہیں۔ اگر حکومت اور فوجی قیادت نظم و ضبط برقرار رکھتی ہے۔ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کیا جاتا ہے اور قومی سلامتی و داخلی امن و امان یقینی بنایا جاتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم عمر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
تو اِس سے پاکستان کا معاشی مستقبل محفوظ ہوگا اور یقینا یہ پاکستان کی تاریخ میں فیصلہ کن لمحات ثابت ہوں گے لیکن اگر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اور سیاسی لڑائیاں دوبارہ شروع ہوتی ہیں اور معاشی پالیسیاں متضاد رہتی ہیں یا سلامتی کے خدشات میں اضافہ ہوتا ہے تو پاکستان ایک بار پھر بحران اور معاشی بحالی کے چکر میں پھنس سکتا ہے۔ دنیا کی نظریں پاکستان کے داخلی استحکام پر لگی ہوئی ہیں۔