منصوبہ بندی برائے مستقبل

تیزی سے پیچیدہ اور بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں، اقوام کو برتری (مسابقت) اور پائیدار ترقی کے لئے ضروری ہے کہ وہ تکنیک (ٹیکنالوجی) میں سرمایہ کاری کریں۔ اسٹریٹجک دور اندیشی میں سب سے مؤثر اوزار میں سے ایک ”ڈیلفی“ طریقہ کہلاتا ہے۔ یہ منظم‘ انٹرایکٹو پیش گوئی کی تکنیک مستقبل کے تکنیکی رجحانات کی پیش گوئی کرنے اور قومی منصوبہ بندی کو آسان بناتی ہے۔ ڈیلفی طریقہ کار میں سروے کے متعدد ادوار شامل ہوتے ہیں جن سے ماہرین بصیرت حاصل کرتے ہیں اور ایک قسم کا اتفاق رائے پیدا ہوتا ہے۔ دور اندیشی میں ڈیلفی طریقہ کار کا اہم فائدہ متنوع نکتہئ نظر شامل کرنے، تعصب کو کم سے کم کرنے اور مستقبل کی تکنیکی ترقی کے لئے ایک مشترکہ نکتہئ نظر بنانے کی صلاحیت ہے۔ جب قومی منصوبہ بندی کے مراحل میں اِسے لاگو کیا جاتا ہے تو، ڈیلفی ٹائپ کی دور اندیشی پالیسی سازوں کو ابھرتی ہوئی ٹکنالوجیز کی شناخت کرنے، ان کے سماجی و اقتصادی اثرات کا اندازہ لگانے اور طویل مدتی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد کرتی ہے۔ ممالک اس نکتہئ نظر کو تحقیقی فنڈنگ کی ترجیح‘ صنعتی پالیسیوں کی رہنمائی اور جدت پر مبنی ماحولیاتی نظام کو بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس مشق کو انجام دینے
 میں مختلف شعبوں کے ماہرین بشمول تعلیم، صنعت اور حکومتی فیصلہ ساز مستقبل کی تکنیکی ترقی پر جامع نکتہئ نظر مرکوز کرتے ہیں۔ دور اندیشی کے لئے ڈیلفی استعمال کرنے میں جاپان عالمی رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ جاپان کی سائنس و ٹیکنالوجی ایجنسی (ایس ٹی اے) نے 1970ء کی دہائی سے ہر پانچ سال بعد ڈیلفی سروے کیا تاکہ اس سے قومی تحقیق اور ترقی (آر اینڈ ڈی) سے متعلق ترجیحات کے تعین میں رہنمائی لی جاسکے۔ دور اندیشی کی اِن مشقوں نے جدید مینوفیکچرنگ، روبوٹکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر جاپان کو بالادست بنایا ہے۔ جرمنی نے بھی ڈیلفی طریقہ کار کو کامیابی کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک دور اندیشی کے پروگراموں میں شامل کیا ہے، خاص طور پر اس کے بی ایم بی ایف فارسائٹ پروسیس میں  اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ جنوبی کوریا جو کہ ایک ترقی پذیر ملک تھا اِسی وجہ سے ٹیکنالوجی پاور ہاؤس میں تبدیل ہوا کیونکہ کوریا نے کوریا انسٹی ٹیوٹ آف ایس اینڈ ٹی ایویلیوایشن اینڈ پلاننگ (کے آئی ایس ٹی ای پی) کے ذریعے اپنی اسٹریٹجک آر اینڈ ڈی سرمایہ کاری کی رہنمائی کے لئے ڈیلفی فارسائٹ کا استعمال کیا اور اِس دور اندیشی کا اہم نتیجہ 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں سیمی کنڈکٹر ٹیکنالوجی کو ترجیح دینا تھا۔ جنوبی کوریا نے سیمی کنڈکٹر تحقیق اور پیداوار میں سرمایہ کاری کی، جس کے نتیجے میں سام سنگ اور ایس کے ہائنیکس جیسے عالمی ادارے ابھرے اور آج جنوبی کوریا سیمی کنڈکٹر مینوفیکچرنگ میں عالمی رہنما ہے۔ سنگاپور نے اپنی قومی منصوبہ بندی میں ڈیلفی قسم کی دور اندیشی کو کامیابی سے استعمال کیا۔ ترکی نے بھی جدت اور معاشی ترقی کو آگے بڑھانے کے لئے دور اندیشی کے طریقوں کو اپنایا۔ ترکی کی سائنسی اور تکنیکی تحقیقی کونسل (ٹوبی ٹیک) نے ملک کے تکنیکی روڈ میپ کے لئے ڈیلفی پر مبنی متعدد دور اندیشی مطالعات کا انعقاد کیا۔ ایک اہم کامیابی دفاعی ٹیکنالوجی اور ایرو اسپیس کی صنعتوں میں حاصل ہوئی‘ جس میں ترکی نے اپنی قومی سلامتی اور برآمدی صلاحیت کو مضبوط کرتے ہوئے ڈرون ٹکنالوجی تیار کی۔ چین نے اپنے وسیع تر قومی منصوبہ بندی کے اقدامات، خاص طور پر اپنے پانچ سالہ منصوبوں میں ڈیلفی تکنیک کو اپنایا۔ چینی اکیڈمی آف سائنسز اور وزارت
 سائنس و ٹیکنالوجی اس میں پیش پیش رہی۔  پاکستان بھی اپنی قومی منصوبہ بندی میں ڈیلفی طرز کی دور اندیشی کو اپنانے سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ سال دوہزار پانچ اور دوہزارچھ کے دوران راقم الحروف کی زیرنگرانی ایک مشق کی گئی جس میں تعلیمی، سرکاری اور نجی شعبے کے ہزاروں ماہرین نے حصہ لیا۔ 330 صفحات پر مشتمل دستاویز مرتب کی گئی جس میں کئی اہم شعبوں (ترجیحات) کی نشاندہی کی گئی اور ان ترجیحات کو کابینہ نے 2007ء میں منظور بھی کیا لیکن بدقسمتی سے اِن پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ اقتصادی استحکام، توانائی کے تحفظ اور تکنیکی ترقی جیسے چیلنجوں کے پیش نظر، پاکستان کو قابل تجدید توانائی، ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن اور جدید مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں کو ترجیح دینی چاہئے۔ دور اندیشی کی مشقوں سے فائدہ اٹھاکر حکومت ابھرتی ہوئی صنعتوں کی نشاندہی کر سکتی ہے اور مصنوعی ذہانت، بائیو ٹیکنالوجی اور فن ٹیک جیسے شعبوں میں براہ راست سرمایہ کاری کر سکتی ہے۔ وقت ہے کہ ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جائے جو ہماری حقیقی دولت یعنی ہمارے بچوں (افرادی قوت) پر منحصر ہو اور پائیدار سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے تعلیم، سائنس، ٹیکنالوجی اور انٹرپرینیورشپ کو ترجیح دے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)