فلم ساز سرمد کھوسٹ کی آنے والی فلم 'زندگی تماشا' پر تاحیات پابندی لگانے کے لیے لاہور کی مقامی عدالت میں درخواست دائر کردی گئی۔
'زندگی تماشا' پر تاحیات پابندی کے لیے درخواست ایک ایسے وقت میں دائر کی گئی جب کہ 2 دن قبل ہی سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے فلم کو ریلیز کرنے کی اجازت دی تھی۔
سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 14 جولائی کو کہا تھا کہ کمیٹی نے فلم کا جائزہ لیا، تاہم فلم میں کوئی بھی قابل اعتراض مواد نہیں پایا گیا۔
کمیٹی کے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹرمصطفیٰ نواز کھوکھرنے اپنی ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ 'زندگی تماشا' کو کورونا وبا کے بعد ریلیز کیا جا سکتا ہے۔
سینیٹ کمیٹی کی جانب سے فلم کو ریلیز کی اجازت دیے جانےکے بعد انجمن ماہریہ نصیریہ نامی تنظیم نے فلم پر تاحیات پابندی کے لیے درخواست دائر کردی۔
تنظیم نے لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں درخواست دائر کی، جس پر 16 جولائی کو مختصر سماعت ہوئی۔
ایڈیشنل سیشن جج وسیم احمد نے مختصر سماعت کی، جس دوران فلم ساز سرمد کھوسٹ کے وکیل نے وکالت نامہ جمع کروادیا۔
فلم کے ٹریلر سامنے آنے کے بعد مذہبی جماعت نے احتجاج کیا تھا—اسکرین شاٹ
تنظیم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فلم میں مذہبی فرقے کو نشانہ بنایا گیا ہے اور اگر فلم ریلیز ہوئی تو معاشرے میں ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔
درخواست میں عدالت سے زندگی تماشا پر تاحیال پابندی عائد کرنے کی استدعا بھی کی گئی ہے۔
عدالت نے فلم ساز سرمد کھوسٹ سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت کو 27 جولائی تک ملتوی کردیا۔
خیال رہے کہ سرمد کھوسٹ کی فلم کا ٹریلر گزشتہ برس سامنے آیا تھا اور مذکورہ فلم کو جنوبی کوریا میں ہونے والے بوسان فلم میں پیش بھی کیا جا چکا ہے۔
فلم کا ٹریلر سامنے آنےکے بعد مذہبی جماعت نے فلم کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد فلم ساز نے ابتدائی طور پر فلم کا ٹریلر یوٹیوب سے ہٹایا تھا اور بعد ازاں حکومت نے فلم کی نمائش بھی روک دی تھی۔
سینسر بورڈ نے فلم کو ریلیز کی اجازت دی تھی مگر حکومت نے اس کی نمائش روک دی تھی—اسکرین شاٹ
اگرچہ فلم سینسر بورڈ نے ابتدائی طور پر فلم کو ریلیز کے لیے کلیئر قرار دیا تھا، تاہم مذہبی جماعت کے احتجاج کے بعد وفاقی حکومت نے فلم کی نمائش روکتے ہوئے معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
فلم کو اسلامی نظریاتی کونسل میں بھجوائے جانے کے بعد سینیٹ کی انسانی حقوق سے متعلق ذیلی کمیٹی نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے فلم کا جائزہ لیا اور دو دن قبل ہی کمیٹی نے فلم کو ریلیز کے لیے کلیئر قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ’زندگی تماشا‘ کے خلاف مظاہروں کو روکا جائے، سرمد کھوسٹ عدالت پہنچ گئے
فلم کی نمائش روکے جانے اور مذہبی تنظیم کی جانب سے فلم کے خلاف مظاہروں کی دھمکیوں کے بعد فلم ساز سرمد کھوسٹ نے لاہور کی سول کورٹ میں بھی درخواست دائر کی تھی، تاہم تاحال ان کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں آیا۔
’زندگی تماشا‘ پر مذہبی افراد کو غلط انداز میں پیش کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے جب کہ فلم ساز ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ فلم کی کہانی ’ایک اچھے مولوی کے گرد گھومتی ہے اور فلم میں کسی بھی انفرادی شخص، کسی فرقے یا مذہب کی غلط ترجمانی نہیں کی گئی‘۔